1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: مسلم تعلیمی اداروں میں غیر مسلم طلبہ کی اکثریت، رپورٹ

جاوید اختر، نئی دہلی
12 فروری 2024

ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں باون فیصد غیر مسلم طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ رپورٹ تیار کرنے والوں کے مطابق اس رپورٹ نے مسلم اداروں کے حوالے سے بے بنیاد الزامات کو غلط ثابت کردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4cHka
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی 23 مسلم اقلیتی یونیورسٹیز میں جہاں ہندو طلبہ کی تعداد 52.7  فیصد ہے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی 23 مسلم اقلیتی یونیورسٹیز میں جہاں ہندو طلبہ کی تعداد 52.7  فیصد ہےتصویر: DW/S. Waheed

دہلی کے ایک غیر سرکاری ادارے سینٹر فار اسٹڈی اینڈ ریسرچ (سی ایس آر) انڈیا نے ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے زیر انتظام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں غیر مسلم طلبہ کی تعداد مسلم طلبہ کے مقابلے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق غیر مسلم طلبہ کی تعداد52.7 فیصد ہے جب کہ مسلم طلبہ کی تعداد صرف 42.1 فیصد ہے۔

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب برصغیر کے معروف تعلیمی ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ اور دائیں بازو کی تنظیمیں دیگر مسلم اداروں کے اقلیتی کردار کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں۔

بھارت کے تين مسلم تعليمی ادارے، دنيا بھر ميں اپنی مثال آپ

سی ایس آر انڈیا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان کے مطابق اس رپورٹ نے اس غلط تصور کو پاش پاش کردیا ہے کہ مسلم کالجوں میں صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں کہا،"میں اس رپورٹ کو 'متھ بسٹر' کہتا ہوں کیونکہ ملک میں وسیع پیمانے پر یہ پروپیگنڈا پھیلایا جارہا ہے کہ مسلم تعلیمی اداروں میں تو صرف مسلم بچے اور بچیاں ہی پڑھتی ہیں۔ جبکہ اعدادوشمار سے ظاہرہے کہ مسلم تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکیوں کے مقابلے غیر مسلم لڑکیوں بھی تعداد زیادہ ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ یہ رپورٹ حکومت کے مختلف اداروں ا ور تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کے علاوہ 'اطلاعات کا حق' (آر ٹی آئی) کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ ڈاکٹر رضوان کے مطابق سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے۔

سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد بھارتی مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے
سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد بھارتی مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہےتصویر: Javed Akhtar/DW

رپورٹ میں کیا ہے؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی 1113 یونیورسٹیز میں  23 مسلم اقلیتی ہیں، جہاں ہندو طلبہ کی تعداد 52.7  فیصد اور مسلم طلبہ کی تعداد صرف 42.1  فیصد ہے۔ اسی طرح 1115 مسلم اقلیتی کالجوں میں غیر مسلم طلبہ اکثریت میں ہیں۔ ان کالجوں میں ہندو طلبہ کی تعداد 55.1 فیصد ہے جب کہ مسلم طلبہ کی تعداد صرف42.1 فیصد ہے۔ دیگر اقلیتی گروپ کے 2.8 فیصد طلبہ بھی مسلم تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔

بھارت:مدارس میں رامائن اور گیتا پڑھانے کا متنازعہ سرکاری فیصلہ

تعلیمی سال 2021-22 میں مسلمانو ں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم لڑکوں کی تعداد 47.18 فیصد اور لڑکیوں کی تعداد 52.8 فیصد تھی۔

 

ڈاکٹر محمد رضوان کا کہنا تھا کہ بعض مسلم تعلیمی اداروں میں پروفیشنل کورسیز میں توغیر مسلم طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔"علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں غیر مسلم طلبہ کی تعداد 65  فیصد سے زیادہ ہے اور مسلم طلبہ صرف 35  فیصد ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی میں بھی پروفیشنل کورسیز میں غیر مسلم طلبہ کی تقریباً یہی صورت حال ہے۔"

Indien Neu Delhi | Dr. Mohammad Rizwan | Direktor CSR India
سی ایس آر انڈیا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان کے مطابق اس رپورٹ نے اس غلط تصور کو پاش پاش کردیا ہے کہ مسلم کالجوں میں صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیںتصویر: Javed Akhtar/DW

غیر مسلم طلبہ مسلم تعلیمی اداروں میں کیوں داخلہ لیتے ہیں؟

ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ اس رپورٹ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ بے بنیاد اسباب کی بنا پر اقلیتی اداروں کے کردار کو ختم کرنا چاہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی سوچ درست نہیں ہے۔ "اس رپورٹ نے'واٹس ایپ یونیورسٹی' کے ذریعہ پھیلائی جانے والی افواہوں کو بے بنیاد ثابت کر دیا ہے۔ دراصل ہندو طلبہ اور ان کے والدین کے لیے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ انہیں جب کوئی اچھا، گھر کے نزدیک اور کم فیس والا کالج ملتا ہے تو وہ ہندو یا مسلمان کی نگاہ سے اسے نہیں دیکھتے۔"

بھارت: بی جے پی حکومت مدارس کے سروے پر مصر کیوں ؟

انہوں نے مزید کہا کہ رپورٹ کی تیاری کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ غیر مسلم لڑکیوں کے والدین اپنی بچیوں کو مسلم تعلیمی اداروں میں زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "مسلم تعلیمی اداروں میں تکنیکی کورسز میں 55 سے 60  فیصد غیر مسلم طلبہ ہیں۔ صرف جنرل کورسز میں مسلم طلبہ کی تعداد 60  فیصد ہے جب کہ ٹیکنیکل کورسز میں غیر مسلم طلبہ کی اکثریت ہے۔"

اس رپورٹ کے مطابق  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں غیر مسلم طلبہ کی تعداد 65  فیصد سے زیادہ ہے
اس رپورٹ کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں غیر مسلم طلبہ کی تعداد 65  فیصد سے زیادہ ہے تصویر: imago/Indiapicture

رپورٹ کی اہمیت

 دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر سچر کی قیادت والی سچر کمیٹی نے سن 2006 میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں چھ سے چودہ برس عمر کے 25 فیصد مسلم بچوں نے یا تو کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا یا تعلیم مکمل نہیں کرپائے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی بیس سال سے زیادہ عمر کے غیر مسلم طلبہ کی تعداد سات فیصد کے مقابلے مسلم طلبہ کی تعدادچار فیصد سے بھی کم تھی۔

رپورٹ سے یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، این آئی ٹی اور آئی آئی آئی ٹی جیسے اہم تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ کی تعداد دو فیصد سے بھی کم ہے۔

سی ایس آر انڈیا کی این او یو ایس نیٹ ورک کے تعاون سے تیار کردہ یہ رپورٹ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اور شدت پسند ہندو تنظیموں سے قربت رکھنے والے ایک طبقے کی اس دقیانوسی نظریے کو توڑنے کے لیے اہم سمجھی جارہی ہے، جن کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں صرف مسلم طلبہ ہی پڑھتے ہیں۔

دہلی یونیورسٹی کے نصاب سے علامہ اقبال باہر، ساورکر داخل

رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلم ادارے نہ صرف تعلیمی لحاظ سے پسماندہ مسلم کمیونٹی کی خدمت کرتے ہیں بلکہ ہندو کمیونٹی کے طلبہ کی بھی یکساں طورپر تعلیمی ضرورتوں کو پورا کررہے ہیں۔

 سی ایس آر انڈیا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان کا کہنا تھا کہ "تمام کمیونٹیز میں تعلیم کو پھیلانے میں مسلم اداروں کا کردار کسی سے کم نہیں ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ سوالیہ نشان لگاتے ہیں وہ دراصل فرقہ وارانہ جنون کی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کررہے ہیں۔"