بھارت میں ہر دس منٹ میں ایک دلت نشانہ ستم بنتا ہے۔ تاہم یوم آزادی سے عین دو دن قبل ایک نو سالہ دلت لڑکے کی دلدوز موت کا، جو واقعہ پیش آیا، اس نے بھارتی معاشرے میں دھرم کی بنیاد پر طبقاتی نظام کی جڑے کتنی گہری ہیں، اسے بری طرح سے اجاگر کیا ہے۔ اس معصوم کو اپنی جان محض اس وجہ سے گنوانا پڑی کہ اس نے اپنے ''اعلی ذات‘‘ کے ٹیچر کے مٹکے سے پانی پینے کی جرات کی تھی۔
نسلی برتری کی یہ لعنت تعلیم گاہوں خصوصاﹰ اسکولوں میں بھی وباء کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ مجھے سکول میں پیدائش کی بنیاد پر کبھی مسئلہ نہیں ہوا اور غالبا ً اس کی وجہ یہ ہے کہ میری تعلیم ایک ایسے اسکول میں ہوئی، جس کا ذریعہ تعلیم اُردو ہونے کے سبب سب طلبا میرے ہم مذہب تھے۔
بہرحال جب بھی پیدائش اور اونچ نیچ کی بنیاد پر ایسے واقعات کی خبریں سامنے آتی ہیں تو یہ خیال میرے ذہن کو کچوکے لگاتا ہے کہ کیا آج بھی ایک انسان دوسرے انسان کو محض پیدائش کی بنیاد پر جانور سے بھی کم تر سمجھتا ہے؟ کیا اس ملک سے صدیوں سے جاری پیدائش کی بنیاد پر روا امتیازی سلوک اور ظلم و تشدد کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا، جہاں مویشیوں اور حشرات کو بھی تکریم سے پوجا جاتا ہے؟
راجستھان کے جالور ضلع کے سورانا گاؤں کے ایک نجی اسکول میں نو سالہ معصوم طالب علم اندر کمار میگھوال کو کیا معلوم تھاکہ وہ، جس مٹکے سے شدت پیاس بجھانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ اس کی موت کا پیغا م ثابت ہو گا۔ اس معصوم لڑکے کو کیا معلوم ہو گا کہ پیدائشی امتیاز کیا چیز ہوتی ہے؟
اسی طرح اتر پردیش کے بہرائچ ضلع میں ایک 13 سالہ دلت لڑ کے کو فیس ادا نہ کرنے پر اس کے اونچی ذات کے ٹیچر نے اتنا مارا کہ وہ میگھوال کی طرح نو دن تک موت و زیست کی جنگ لڑتے ہوئے ہار گیا۔ ایک اور ریاست مدھیہ پردیش کے ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر نے 12ویں جماعت کی دلت لڑکی کو اپنی نسلی عصبیت کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعات دراصل برفانی تودے کے اوپری سرے کے مانند ہیں، جس کی گہرائی کا پتہ نہیں چلتا۔
خود بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ہر دس منٹ بعد ایک دلت ظلم و زیادتی کا شکار ہوتا ہے، جو اس تلخ حقیقت کو واشگاف انداز میں بیان کرتا ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی ملک بھر میں ذات پات کی جاہلانہ عصبیت قانون سازی کے باوجود زندگی کے ہر شعبے میں کار فرما ہے۔
پہلی بار ایسا نہیں ہوا ہے کہ دلت لڑکوں کو اسکولوں میں ”اونچی ذات" کے ہندوؤں کے لیے مخصوص برتن سے پانی پینے سے منع کیا گیا ہو۔ آج سے ٹھیک 100 سال پہلے مشہور دلت سیاستدا ں بابو جگجیون رام کو بھی، جو بعد میں بھارت کے نائب وزیر اعظم بنے، اپنے اسکول میں اسی ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بہرحال وہ خوش قسمت تھے کہ ا نہیں جان نہیں گنوانا پڑی۔
ان کی صاحبزادی میرا کمار نے، جو پارلیمنٹ کے ایوان عام کی سابق اسپیکر ہیں، اپنے والد کے ساتھ ہوئے اس 'غیر انسانی‘ سلوک کو یاد کرتے ہوئے ٹویٹ کیا، '' 100 سال پہلے میرے والد بابو جگجیون رام کو اسکول میں سورن ہندوؤں کے لیے مخصوص گھڑے سے پانی پینے سے منع کیا گیا تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ ان کی جان بچ گئی۔ آج اسی وجہ سے ایک نو سالہ دلت لڑکا مارا گیا ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد بھی ذات پات کا نظام ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔"
وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کے ساتھ یہ سلوک 1922ء میں ہوا تھا، اس وقت ملک آزاد نہیں تھا لیکن آج 75 واں جشن آزادی منا جا رہا ہے، '' میرے والد کہتے تھے کہ وہ بھارت کو ایک ایسا آزاد ملک دیکھنا چاہتے ہیں، جس میں دلت اور کمزور طبقات کے دن بدلیں گے۔ لیکن آج میں سوچتی ہوں کچھ نہیں بدلا۔ میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ وہ زندہ نہیں ہیں، یہ دیکھنے کے لیے کہ جالور میں کیا ہوا۔‘‘
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق دلتوں کے خلاف جرائم میں پچھلے سال کے مقابلے میں 9.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر مظالم بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاستوں میں سے ایک اتر پردیش میں درج کیے گئے۔
قبائلی برادریاں بھی ظلم کا شکار ہیں۔ پارلیمنٹ میں دی گئی معلومات کے مطابق سن 2018ء اور 2020ء کے درمیان قبائلیوں کے خلاف جرائم میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
راجستھان کا واقعہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے۔ اعلیٰ ذاتوں کی انا اور غرور کو اس وقت چوٹ پہنچتی ہے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی دلت مونچھیں رکھتا ہو یا دلت دولہا گھوڑی پر سوار ہوتا ہے یا امبیڈکی موسیقی کو رنگ ٹونز کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
پیدائش کی بنیاد پر یہ عصبیت سیاسی سطح پر بھی موجود ہے۔ جنوبی بھارت کی ریاست تامل ناڈو میں ''اچھوت مٹاؤ محاذ‘‘ نے ایک سروے میں انکشاف کیا کہ ریاست میں 386 پنچایتوں میں سے 22 دلت پنچائیتی صدور کو بیٹھنے کے لیے کرسیاں نہیں دی گئیں جبکہ کئی دلت پنچایتی صدرو کو قومی پرچم لہرانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
اسی طرح آل انڈیا سروے فار ہائر ایجوکیشن کے مطابق دلت اساتذہ کی تعداد محض 8.6 فی صد ہے جب کہ دلت طبقات کو سرکاری ملازمتوں میں 15فی صد ریزرویشن حاصل ہے۔
دلت طبقات اور ان کے رہنماؤں میں نو سالہ معصوم کی موت پر زبردست غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ تاہم بعض دلت رہنما اس کے لیے خود دلتوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور راشٹریہ جن ہت سنگھرش پارٹی کے صدر بھانو پرتاپ سنگھ کہتے ہیں کہ دلتوں کی سماجی حیثیت میں اس وقت تک تبدیلی نہیں ہو گی، جب تک وہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کر ہندو دھرم کو ترک نہیں کریں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ دلتوں کے بعض رہنما اپنے سیاسی مفادات کے لیے صرف امبیڈکر کا نام استعمال کرتے ہیں۔ دلت و کمزور طبقات ذات پات کے ظالمانہ نظام (ورن آشرم) کے خلاف ڈاکٹر امبیڈکر کو اپنا مسیحا اور نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔