بھارتی انتخابات: کس کا ہاتھ غریبوں کے ساتھ؟
31 مارچ 2009بھارت سے شائع ہونے والے اخبار ’ایکنامک ٹائمز‘ سے وابستہ سرکردہ صحافی مسعود حسین کہتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارتی انتخابات میں ہمیشہ ہی معاشی موضوع چھایا رہا ہے۔’’چاہے وہ ریاستی اسمبلیوں کے لئے الیکشن ہوں یا بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا کے انتخابات ہوں، معاشی مسئلہ ہمیشہ ہی ان انتخابات میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں انسانوں کا ایک سمندر رہتا ہے جس کا ایک بہت بڑا حصّہ غربت کی لکیر سے نیچے رہتا ہے۔‘‘
لوک سبھا انتخابات سے قبل بھارت میں پرانے محاذ ٹوٹ رہے ہیں اور نئے محاذ بن رہے ہیں۔ اس بار انتخابات میں کس کی ہوگی جیت اور کس کی ہوگی ہار؟ اس حوالے سے بھارتی ریاست مہاراشٹر میں مقیم معروف تجزیہ نگار حسن کمال کہتے ہیں:’’اس بار جو صورتحال ہے وہ بہت ہی زیادہ غیر یقینی ہے۔‘‘
علاقائی پارٹیوں کا کردار
’’دو محاذ آمنے سامنے تھے، متحدہ ترقی پسند اتحاد UPA اور قومی جمہوری اتحاد NDA، پھر تیسرا محاذ بنا۔ تیسرے محاذ نے اس لئے زور پکڑا ہے کیوں کہ علاقائی جماعتوں کا ایک بہت ہی سوچا سمجھا مقصد ہے، وہ یہ کہ دو قومی پارٹیاں، یعنی بی جے پی اور کانگریس، ملاکر پارلیمان کی آدھی نشستوں سے کم نشستیں حاصل کرسکیں۔‘‘
بھارت میں مخلوط سیاست ایک حقیقت بن چکی ہے اور علاقائی پارٹیوں کا کردار پہلے سے اور بھی زیادہ اہم ہوتا جارہا ہے۔
تجزیہ نگار حسن کمال کہتے ہیں کہ 1994ء کے بعد سے بھارت میں یہ رجحان ہے کہ قومی پارٹیوں کی سیٹیں کم ہورہی ہیں اور علاقائی پارٹیوں کی سیٹیں بڑھ رہی ہیں۔
بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کی 543 نشستوں کے لئے انتخابات پانچ مرحلوں میں منعقد کئے جارہے ہیں۔ عام انتخابات 2009ء کا پہلا مرحلہ سولہ اپریل کو شروع ہوگا۔ انتخابات کا پانچواں اور آخری مرحلہ تیرہ مئی کو ہوگا۔
کون بنے گا وزیر اعظم؟
بھارت میں کانگریس کی سربراہی میں متحدہ ترقی پسند اتحاد UPA، بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرستی میں قومی جمہوری اتحاد NDA، بائیں بازو کی جماعتوں کی لیڈرشپ میں تیسرا محاذ اور راشٹریہ جنتا دل کے رہنما لالو پرساد یادو کی قیادت میں ممکنہ طور پر چوتھا محاذ، کس محاذ کی ہوگی جیت؟ اور کس کی ہوگی ہار؟ اس کا فیصلہ تو بھارتی ووٹرز ہی کریں گے۔
تجزیہ نگار حسن کمال کہتے ہیں کہ بی جے پی کی سرپرستی میں قومی جمہوری اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس میں لیڈرشپ کا فقدان بھی ہے۔’’سب جانتے ہیں کہ لال کرشن اڈوانی، راجناتھ سنگھ، نریندر مودی اور ارون جیٹلی کے مابین لیڈرشپ کی جنگ جاری ہے۔‘‘
بھارتی پارلیمان کے لئے ہر پانچ سال بعد انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ 2004ء کے انتخابات میں وزیراعظم کے عہدے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرکردہ رہنما لال کرشن اڈوانی اور کانگریس کی طرف سے پارٹی صدر سونیا گاندھی جیسے مضبوط امیدواروں کے نام تھے۔ لیکن جب کانگریس کی سرپرستی میں مخلوط حکومت بنی تو سونیا گاندھی کے وزیر اعظم بننے پر ملک بھر سے اعتراضات سامنے آئے۔
بی جے پی کا موقف تھا کہ کسی بھی ایسی سیاسی شخصیت کو بھارت کا وزیر اعظم بننے کا حق نہیں ہے جس کی جڑیں بھارت سے جڑی نہیں ہوں۔ اٹلی میں پیدا ہونے والی سونیا گاندھی نے وزیراعظم کے عہدے کو خیرباد کہہ کر معاملے کو ٹھنڈا کردیا اور پھر وزیر اعظم کے عہدے کے لئے من موہن سنگھ کا نام تجویز کیا گیا۔ لیکن اس بار تصویر کا رُخ بدل چکا ہے۔ بھارتی میڈیا میں اس مرتبہ کانگریس کے راہل گاندھی اور بی جے پی کے نریندر مودی جیسے سیاست دانوں کے چرچے زیادہ نہیں ہیں۔
بھارتی نجی ٹیلی ویژن نیوز چینل CNN-IBN کی طرف سے انتخابات سے قبل کرائے گئے ایک جائزے میں اس بار لیڈرشپ کی جنگ کے لئے دو نام سامنے آرہے ہیں۔ سونیا گاندھی اور لال کرشن اڈوانی۔
یہ جائزہ 23 بھارتی ریاستوں میں کرایا گیا۔
پانچ مرحلوں میں ہونے والے ان انتخابات کے پرُامن انعقاد کے لئے بیس لاکھ سے زائد سیکیورٹی اہلکار تعینات رہیں گے۔
بالی ووڈ اور کرکٹ ستارے سیاسی میدان میں
بھارتی انتخابات میں بالی ووڈ ستارے اور سابق کرکٹرز بھی حصّہ لے رہے ہیں۔ کانگریس کی طرف سے فلم اداکار گووندا شمالی ممبئی کے حقلے سے انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیں جبکہ اداکارہ جیا پردا سماج وادی پارٹی کی طرف سے اترپردیش کے پارلیمانی حلقے رام پور سے انتخابات لڑرہی ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کی طرف سے دو مرتبہ گرداسپور پنجاب سے الیکشن جیتنے والے ایکٹر ونود کھنہ بھی چناوٴمیدان میں ہیں۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد اظہر الدین بھی کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ ان سے پہلے نوجوت سنگھ سدھو اور کیرتی آزاد جیسے کرکٹرز سیاسی میدان میں کود چکے ہیں۔
انتخابات میں معیشت کے نعرے
دہشت گردی، قومی سلامتی، سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے اہم موضوعات تو بھارتی ووٹروں کے ذہنوں میں ہیں ہی لیکن ان انتخابات میں اقتصادیات کے موضوع کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں مقیم معروف بھارتی اخبار ’ایکنامک ٹائمز‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر مسعود حسین کہتے ہیں:’’بھارتی انتخابات کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جو سب سے بڑے نعرے رہے ہیں انتخابات میں ان میں معیشت کی چھاپ ہمیشہ رہی ہے۔ غریبی ہٹاوٴ والا نعرہ ہو یا آجکل جو کانگریس کا نعرہ ہے’کانگریس کا ہاتھ، غریبوں کے ساتھ‘۔ معیشت کا ایشو ہمیشہ ہی بھارتی انتخابات میں اہم ایشو رہے گا۔‘‘