بھارت: اپوزیشن نے رام مندر کے افتتاح کی دعوت مسترد کیوں کی؟
11 جنوری 2024بھارتی ریاست اتر پردیش میں بابری مسجد کے مقام پر تعمیر ہونے والے رام مندر کے افتتاح کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں اور ملک کے کئی علاقوں میں جشن کا سماں ہے۔ اس افتتاحی تقریب میں بیشتر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی، تاہم حزب اختلاف کے اکثر رہنماؤں نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مسجد یا مندر؟ تاریخی گیان واپی مسجد کے مستقبل کا فیصلہ
پہلے اس حوالے سے پارٹیوں کا موقف واضح نہیں تھا، تاہم گزشتہ شام کو جب کانگریس پارٹی نے اس کا باقاعدہ اعلان کیا، تو حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس پر شدید تنقید کی اور کہا کہ وہ ''پاگل ہو گئے ہیں۔''
بھارت: ہندو قوم پرستی کی بھینٹ چڑھتا قدیم تہذیبی و ثقافتی ورثہ
تقریبات میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
بھارت کے معروف صحافی اور تجزیہ کار سنجے کپور گزشتہ روز ہی ایودھیا کے دورے کے بعد دہلی پہنچے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہاں ہر علاقے میں سکیورٹی فورسز کا پہرہ ہے اور ہر جانب ہندو نظریاتی تنظیم ''آر ایس اور بی جے پی کے ہی پرچم ہی نظر آتے ہیں۔''
بھارت: کیا بنارس کی گیان واپی مسجد کو بابری مسجد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟
انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں بتایا کہ کانگریس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ''یہ تقریب مذہبی نوعیت کی نہیں بلکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایک سیاسی ایجنڈہ ہے اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، تو پھر، وہ اسے جواز کیوں فراہم کریں۔''
رام کے نام پر فریب، جو مسلسل جاری ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن کو معلوم ہے کہ ایودھیا میں شرکت کرنے یا نہ کرنے سے ان کا کوئی سیاسی نفع نقصان تو ہونا نہیں ہے، دوسرے ''وہ یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہ بی جے پی کا پروگرام ہے۔۔۔۔۔ اگر رام مندر پر ووٹ ملنا ہو گا تو لوگ اسی کو ووٹ دیں گے جس نے اسے بنوایا ہے، ان کے جانے سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔''
ایودھیا کے قریب ہی ایک اور قدیم مسجد مسمار کر دی گئی
انہوں نے کہا کہ انہیں وجوہات کی بنا پر کئی سارے شنکر آچاریاؤں (ہندو مذہبی روحانی پیشواؤں) نے بھی اس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بی جے پی کا سخت رد عمل
گزشتہ روز جب کانگریس نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تبھی سے بی جے پی کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے کانگریس پر نکتہ چینی کا سلسلہ جاری ہے اور اس کا کہنا ہے کانگریس کا موقف اس بات کا ''عکاس ہے کہ پارٹی بھگوان رام میں یقین نہیں رکھتی ہے۔''
مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا، ''مجھے بتایا گیا ہے کہ سونیا گاندھی نے 22 جنوری کی تقریب کا دعوت نامہ ٹھکرا دیا ہے۔ ہم ان سے کیا اس کے علاوہ کوئی توقع کر سکتے ہیں؟ مجھے یہ کہنا ضروری ہے کہ سونیا گاندھی نے دکھا دیا ہے کہ وہ بھگوان رام پر یقین نہیں رکھتی ہیں۔''
مودی حکومت میں ایک اور وزیر انوراگ ٹھاکر نے بھی کانگریس کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لوگ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن پارٹی کا بائیکاٹ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا، ''کانگریس کا رویہ، کردار اور چہرہ کبھی نہیں بدل سکتا، یہ وہی کانگریس ہے، جس نے حلف نامہ دے کر شری رام کو ایک خیالی چیز کہا تھا۔ یہ وہی کانگریس ہے، جس نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اسی جگہ دوبارہ بابری مسجد بنائیں گے۔''
کانگریس نے اس بارے میں کیا کہا؟
کانگریس پارٹی کے صدر ملک ارجن کھرگے، سونیا گاندھی اور ادھیر رنجن چودھری نے بدھ کے روز رام مندر کی تقریب میں شرکت کی دعوت کو ''احترام کے ساتھ ٹھکرا دیا'' تھا۔ پارٹی نے بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ مندر کی اس تقریب کو، ''انتخابی فائدے کے لیے سیاسی پروجیکٹ'' بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پارٹی کے سینیئر رہنما جے رام رمیش نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، ''مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن آر ایس ایس/بی جے پی نے ایودھیا میں مندر کا ایک سیاسی منصوبہ بنایا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کے ذریعہ نامکمل مندر کے افتتاح کو واضح طور پر انتخابی فائدے کے لئے آگے لایا گیا ہے۔''
اس کے علاوہ سماجوادی پارٹی کے رہنما اکھلیش سنگھ یادو، ترنمول کانگریس کی سربراہ اور ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور ان جیسے جن دیگر سیاسی رہنماؤں کو تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ملا ہے، انہوں نے بھی اس تقریب میں نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان تمام جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکمران ہندو قوم پرست جماعت بی جے رام مندر کی تقریبات کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی 22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے اور اطلاعات کے مطابق وہ مندر کے اندر بعض مذہبی رسومات بھی ادا کریں گے۔