بھارتی خواتین کے خلاف جرائم، وجہ ذات پات کی تقسیم بھی
3 جون 2014ستائیس مئی کو دلت طبقے سے تعلق رکھنے والی دو لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی کے بعد انہیں ہلاک کر دینے کے واقعے کو بھارتی میڈیا میں بہت زیادہ توجہ دی گئی۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران بھارت بھر میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے تاہم اس تازہ واردات کے نتیجے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارتی سماج میں ذات پات کی تقسیم اس مخصوص جرم میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
قتل کر دی جانے والی دونوں لڑکیوں کے ہمسائی لیلاوتی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’کیا بھارت میں نچلی ذات سمجھے جانے والے طبقے کے لیے کوئی انصاف ہے؟ کیا ہمارے ساتھ ہمیشہ جانوروں جیسا سلوک ہی برتا جائے گا؟‘‘
موت کے منہ میں اتار دی جانے والی ان لڑکیوں میں سے ایک، چودہ سالہ مقتولہ کے والد نے کہا ہے کہ اگر پولیس فوری ایکشن کرتی تو ان لڑکیوں کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دو پولیس اہلکار اس جرم میں ملوث تھے۔ میں نے اعلیٰ پولیس اہلکاروں کو درخواست کی تھی لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی۔ انصاف ہمارے لیے نہیں ہے۔ دلتوں کے ساتھ کتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘
اجتماعی زیادتی کے واقعات
بھارتی حکام کے مطابق بھارت میں ہر سال 25 ہزار خواتین کی آبروریزی کی جاتی ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی میں 2012ء میں میڈیکل کی ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے نے ملکی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی واقعے نے عالمی سطح پر بہت زیادہ توجہ بھی حاصل کی تھی، جس کے بعد بھارتی حکومت نے آبروریزی کے خلاف سخت قانون سازی کا عندیہ دیا تھا۔
اگرچہ بھارتی حکومت نے گزشتہ کچھ برسوں سے جنسی زیادتی کے واقعات پر سخت قانونی کارروائیاں کی ہیں تاہم پھر بھی اس جرم کی شرح میں کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوئی۔ حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت میں ’نچلی ذات‘ کے دلت طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مقابلتاﹰ زیادہ دباؤ کا سامنا ہے۔ ماضی قریب میں جمع کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق دلت خواتین کو ہراساں کرنے، ان کی آبروریزی اور بعد ازاں انہیں انتہائی سفاکانہ انداز میں ہلاک کر دینے کے کافی زیادہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔
نئی دہلی کے سینٹر فار سوشل ریسرچ سے منسلک رجنا کماری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ بہت واضح ہے کہ بھارت میں کچھ طبقات دلت خواتین اور لڑکیوں کو سزا دینے کی غرض سے جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔‘‘
ذات پات کے نام پر تشدد
بھارتی ریاست اتر پردیش کی دو سو ملین کی آبادی میں دلت طبقے کا تناسب 21 فیصد ہے۔ بھارتی دارالحکومت میں واقع کونسل برائے سماجی ترقی نامی ایک ادارے کی ڈائریکٹر کلپنا کانبران کہتی ہیں کہ دیگر سماجی طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مقابلے میں دلت خواتین کی صورتحال زیادہ حساس ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’دلت خواتین زیادہ ابتر صورتحال میں ہیں۔ وہ خود کو زیادہ غیر محفوظ تصور کرتی ہیں اور انہیں ایک ’اسٹرکچرل‘ تشدد کا سامنا ہے۔‘‘
کلپنا کانبران کے بقول بھارتی سماج میں ذات پات کے نظام کی وجہ سے وہاں کمزور طبقوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
بھارت میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک خاتون وکیل ورندا گرووَر کہتی ہیں کہ حقیقی طور پر بھارت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے ملکی سطح پر آبروریزی کے خلاف متعارف کرائے جانے والے قوانین کی مہم میں اہم کردار کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’بھارتی سماج میں دلت خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی زیادتیاں معمول ہیں۔ پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ بھارتی سماج میں ذات پات کی تقسیم کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بات کرتے ہوئے ہمیں شرم محسوس کرنا چاہیے۔‘‘