1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی ریاست گجرات کے مسلمان ماہی گیر ’موت‘ کیوں چاہتے ہیں؟

صلاح الدین زین
11 مئی 2022

بھارتی ریاست گجرات کے مسلمان ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ انہیں ’سیاسی ظلم و ستم‘ کا اس قدر سامنا ہے کہ اب وہ جینا ہی نہیں چاہتے۔ ان مسلمانوں کا تعلق عدم تشدد کی سوچ کے علم بردار مہاتما گاندھی کے آبائی وطن سے ہے۔

https://p.dw.com/p/4B7mA
Indien Region Puri vor Ankunft von Zyklon Fani
تصویر: Getty Images/AFP/D. Sarkar

بھارتی ریاست گجرات کے ہائی کورٹ میں حال ہی میں ایک درخواست دائر کی گئی، جس میں تقریباﹰ 600 مسلمانوں کے لیے ’قتل رحم‘ یا ترس کھا کر جان لینے کی استدعا کی گئی ہے۔ یہ درخواست  پوربندر کے ساحلی علاقے گوساباڑا میں رہنے والے سو  مسلم ماہی گیروں کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے اللہ رکھا اسلام بھائی تھمر نے دائر کی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ گجرات میں پوربندر کے ساحلی علاقوں میں بسے ماہی گیروں کی زندگیاں ہزاروں برسوں سے تسلی بخش انداز میں گزر ہی جاتی تھیں۔ تاہم اب وہ اپنے لیے موت کی تلاش میں ہیں۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے یہ خبر مہاتما گاندھی کے آبائی شہر پوربندر کی ہے، جنہیں بھارت میں بابائے قوم کا درجہ حاصل ہے۔

معاملہ ہے کیا؟

اطلاعات کے مطابق گجرات ہائی کورٹ میں گزشتہ ہفتے ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں عرضی گزار نے اپنے اور اپنی مسلم ماہی گیر برادری  کے 600 افراد پر مشتمل کنبوں کے لیے رحم کی بنیاد پر موت کی اجازت دینے کی درخواست کی ہے۔

ہائی کورٹ سے کہا گیا ہے کہ  مقامی ’’حکومت ایک خاص کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کوئی سہولیات فراہم نہیں کرتی اور مسلم ماہی گیروں کی برادری کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال قابل افسوس ہے‘‘، جنہیں کام کرنے اور کچھ کمانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

Polizeizelle in Pakistan - Indische Fischer
تصویر: picture-alliance/S. Imran Ali/PPI Images

یہ درخواست گوساباڑا مسلم فشرمین سوسائٹی کے سربراہ اللہ رکھا اسماعیل بھائی کی جانب سے دائر کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مسلم ماہی گیروں کے ساتھ تفریق کی جاتی ہے۔ درخواست گزار اب ’’سیاسی ظلم و ستم کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگی ہی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔‘‘

اسماعیل بھائی کا الزام ہے کہ حکام ’’مذہب کی بنیاد پر ان ماہی گیروں کے خاندانوں کو ہراساں کر رہے ہیں۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندو ماہی گیروں کو تمام سہولیات باقاعدگی سے فراہم کی جاتی ہیں، لیکن لائسنس ہونے کے باوجود ’’مسلم ماہی گیروں کو کام کرنے کی اجازت تک نہیں۔‘‘

اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ مسلم ماہی گیروں نے ریاستی وزیر اعلیٰ اور گورنر تک بھی اپنی شکایت پہنچائی ہے، انہیں یادداشتیں بھیجی ہیں تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود کسی نے بھی ان کی فریاد نہیں سنی۔

عدالت سے فریاد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اس ضمن میں درخواست گزار اور اس کی کمیونٹی کی 600 زندگیوں کے لیے ان کی خواہشات کے مطابق خوشی سے اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایت نامہ جاری کرے۔

اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی ہمیشہ ’ملک سے وفادار‘ رہی ہے اور کبھی بھی اسمگلنگ جیسی ’ملک دشمن سرگرمیوں‘ میں بھی ملوث نہیں رہی۔ اس کے برعکس مسلم ماہی گیروں نے اکثر ایسی سرگرمیوں کے بارے میں ’سکیورٹی ایجنسیوں کو معلومات فراہم کی ہیں‘ جو ’پاکستان اور دیگر ممالک کی جانب سے اسپانسر کی جاتی ہیں‘۔

درخواست گزار کے وکیل دھرمیش گورجر نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ سن 2016 سے گوساباڑی بندرگاہ میں کشتیوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے۔ اور ’’اسماعیل بھائی اور ان کی برادری کے پاس لائسنس ہونے کے باوجود ان کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔‘‘

اللہ رکھا اسماعیل بھائی کا کہنا ہے کہ گوساباڑا کے پڑوس میں رہنے والی ہندو برادریوں کے پاس انہیں کے گاؤں جیسا ماہی گیری کا لائسنس ہے لیکن انہیں اپنی کشتیاں سمندر میں لے جانے کی اجازت ہے۔ تو ’’ہمیں کیوں یکساں حقوق اور سہولیات نہیں دی جاتیں؟‘‘

دہلی میں فسادات، مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلا دیے گئے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید