1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی شہری بڑی بیماریوں کے پنجے میں

مارٹینا میرٹن / امجد علی18 نومبر 2013

بھارت میں چالیس فیصد اَموات ذیابیطس، دل کے امراض، کینسر یا دماغی خلل کے باعث ہوتی ہیں جبکہ اسی طرح کے اَمراض میں مبتلا ساٹھ فیصد بھارتی شہری 70 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1AJL0
بھارت کے غربت کے شکار بہت سے دیہات میں سے ایک موسے پور (آبادی تقریباً 900 نفوس پر مشتمل) کا منظر، لکھنئو سے قریب ہی واقع یہ گاؤں طبی سہولتوں سے محروم ہے
بھارت کے غربت کے شکار بہت سے دیہات میں سے ایک موسے پور (آبادی تقریباً 900 نفوس پر مشتمل) کا منظر، لکھنئو سے قریب ہی واقع یہ گاؤں طبی سہولتوں سے محروم ہےتصویر: DW/P. Vouille

ویسے تو یہ رجحان پوری دنیا میں نظر آ رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ذیابیطس اور دل کے مختلف طرح کے عوارض کا شکار ہو رہے ہیں لیکن بھارت میں ایسے مریضوں کی تعداد میں زیادہ تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بھارت کے دور اُفتادہ دیہات اور قصبوں میں، جہاں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، مناسب طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ وہاں خون کے معائنوں یا تشخیص کے دیگر ذرائع کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثر بروقت یہ پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ کوئی شخص کس بیماری کا شکار ہے۔

بھارت میں 70 فیصد مریض ایسی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جو ایک سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہو سکتی ہیں۔ عالمی ادارہء صحت WHO کے اندازوں کے مطابق اکٹھے 52 ملین بھارتی شہری شوگر یا ذیابیطس کا شکار ہیں۔ یہ تعداد بھارت کی مجموعی آبادی کا تقریباً چھ فیصد بنتی ہے۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں کہنہ اَمراض کے انسداد کے مرکز CCDC کے ڈائریکٹر دورائے راج پربھاکرن کہتے ہیں کہ زیادہ چکنائی، نمک اور چینی بڑھتی بیماریوں کی وجہ ہیں
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں کہنہ اَمراض کے انسداد کے مرکز CCDC کے ڈائریکٹر دورائے راج پربھاکرن کہتے ہیں کہ زیادہ چکنائی، نمک اور چینی بڑھتی بیماریوں کی وجہ ہیںتصویر: DW/M. Merten

دورائے راج پربھاکرن بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں کہنہ اَمراض کے انسداد کے مرکز CCDC کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بھارت میں اس طرح کی بیماریوں میں اضافے کی وجوہات وہی ہیں، جو امیر صنعتی ملکوں میں ہیں یعنی لوگ چکنائی، نمک اور چینی کا حد سے زیادہ استعمال کرتے ہیں، تمباکو نوشی کرتے ہیں اور اپنے جسم کو کم سے کم حرکت دیتے ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم گلوبل الائنس فار امپرووڈ نیوٹریشن (Gain) سے وابستہ راجن سنکار کہتے ہیں کہ بچپن ہی میں غلط طرح کی خوراک کا استعمال بیماریوں کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جن بچوں کا وزن پیدائش کے وقت معمول سے کم ہوتا ہے اور وہ تیزی سے اپنا وزن بڑھاتے ہیں، اُن کے بعد میں کہنہ اَمراض کا شکار ہو جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں‘۔ اس تنظیم کے اندازوں کے مطابق بھارت میں پانچ سال سے کم عمر کے 43 فیصد بچوں کا وزن اُس سے کہیں کم ہے، جتنا کہ ہونا چاہیے۔

بھارت میں اس طرح کے مسائل بھی ہیں کہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے پاس ہیلتھ انشورنس نہیں ہے اور وہ غربت کی وجہ سے یا تو سرے سے ہی ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے یا پھر بہت دیر سے اپنا علاج معالجہ کروا پاتے ہیں۔ دیہات کے مریض جب تک کسی بڑے ہسپتال تک پہنچتے ہیں، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ماہر ڈاکٹروں اور اچھے ہسپتالوں کا بھی فُقدان ہے۔

موسے پور سے نصف گھنٹے کی دوری پر واقع قصبے صفدر گنج میں ایک چھوٹے سے کلینک کا منظر، اس طرح کے قصبوں میں غریب مریضوں کے لیے خون کے معائنے جیسی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں
موسے پور سے نصف گھنٹے کی دوری پر واقع قصبے صفدر گنج میں ایک چھوٹے سے کلینک کا منظر، اس طرح کے قصبوں میں غریب مریضوں کے لیے خون کے معائنے جیسی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیںتصویر: DW/P. Vouille

2012ء سے نئی دہلی میں Fortis C-Doc کے نام سے ایک خصوصی کلینک قائم کیا گیا ہے، جہاں ذیابیطس جیسی کہنہ بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کلینک کے قیام کا سہرا بھارت کی قومی ذیابیطس فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر انُوپ مشرا کے سر ہے۔ اس جدید ترین ہسپتال میں علاج مہنگا ضرور ہے لیکن وہاں اچھے ڈاکٹروں کی کوئی کمی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل روزانہ ایک سو مریض اس کلینک سے رجوع کر رہے ہیں۔ اس طرح مریضوں کی تعداد میں 2012ء کے مقابلے میں 300 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انُوپ مشرا کے مطابق اب ایسے مزید طبی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔

بھارتی وزارتِ داخلہ سے وابستہ اَنشُو پرکاش کے مطابق سن 2010ء سے کینسر، ذیابیطس، دل کے عوارض اور فالج کے انسداد کے لیے ایک قومی پروگرام جاری ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی لوگوں کو آگاہی دی جا رہی ہے۔ پرکاش کے مطابق 2017ء تک بیماریوں سے تحفظ اور آگاہی کے قومی پروگرام کا دائرہ پورے ملک تک پھیلا دیا جائے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید