بھارتی صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ، دروپدی مرمو کی جیت یقینی
18 جولائی 2022بھارت کے 15 ویں صدر کو منتخب کرنے کے لیے آج پیر اٹھارہ جولائی کے روز پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے علاوہ ملک بھر کی ریاستی اسمبلیوں کے مجموعی طور پر 4800 اراکین ووٹ ڈال رہے ہیں۔ نتائج کا اعلان 21 جولائی کو ہو گا اور نومنتخب صدر کی حلف برداری 25 جولائی کو ہو گی۔
صدارتی انتخاب میں ماضی میں بالعموم حکمران جماعت یا اتحاد کا پلڑا ہی بھاری رہا ہے۔ موجودہ حکمران نیشنل ڈیموکریٹک الائنس(این ڈی اے) نے بی جے پی کی ایک رہنما اور جھاڑکھنڈ کی سابقہ گورنر دروپدی مرمو کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ وہ صدر رام ناتھ کووند کی جانشین ہوں گی، جو پسماندہ دلت طبقے سے تعلق رکھنے والی دوسری شخصیت تھے، جو ملکی صدر منتخب ہوئے تھے۔ 76 سالہ کووند ایک عرصے تک آر ایس ایس سے بھی وابستہ رہے۔ ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس پر مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
دروپدی مرمو کی جیت کا مطلب
ملکی پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اراکین کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرمو ہی بھارت کی نئی صدر ہو ں گی۔ کئی اپوزیشن جماعتوں نے بھی ان کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد وہ دو تہائی ووٹوں سے جیت سکتی ہیں۔
دروپدی مرمو اگر صدر منتخب ہو جاتی ہیں، تو ملک کے اس اعلیٰ ترین آئینی عہدے پر پہنچنے والی وہ پہلی قبائلی خاتون ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی وہ دوسری خاتون صدر بھی ہوں گی۔ پرتبھا پاٹل کو بھارت کی پہلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
بھارت میں کوئی بھی شخص صدر منتخب ہو جانے کے بعد پارٹی خطوط سے بالا تر ہو جاتا ہے۔ گوکہ وہ تینوں مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوتا ہے تاہم تمام انتظامی اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہوتے ہیں اور اسی لیے بعض سیاسی مبصرین صدارتی عہدے کو 'ربر اسٹیمپ‘ بھی قرار دیتے ہیں۔ لیکن بھارت میں جوڑ توڑ کی موجودہ سیاست اور 'آمرانہ جمہوریت‘ کے دور میں صدر کا کردار کافی اہم ہو گیا ہے۔
دروپدی مرمو کون ہیں؟
اس وقت 64 سالہ دروپدی مرمو کا تعلق مشرقی ریاست اوڈیشہ سے ہے۔ انہوں نے ایک ٹیچر کی حیثیت سے اپنا کیریئر شروع کیا تھا۔ ان کا سیاسی کیریئر بھی کافی طویل اور جدوجہد سے بھرپور رہا ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز ایک وارڈ کونسلرکے طور پر کیا تھا۔ وہ بی جے پی کی امیدوار کی حیثیت سے اوڈیشہ اسمبلی کے لیے دو مرتبہ منتخب ہوئیں اور وزارت کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔
سن 2015 میں جب انہیں جھاڑکھنڈ کا گورنر بنایا گیا تو وہ اس بھارتی ریاست میں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے والی پہلی گورنر تھیں۔ سن2017 میں بھی وہ صدارتی امیدوار بننے کے دعوے دار تھیں تاہم بی جے پی نے تب بہار کے اس وقت کے گورنر رام ناتھ کووند کو ان پر ترجیح دی تھی۔
دروپدی مرمو جب جھاڑکھنڈ کی گورنر تھیں تو اس وقت اس ریاست میں بی جے پی حکومت پر قبائلیوں پر کئی مظالم ڈھانے کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔ بہت سے قبائلی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا حتیٰ کہ کئی عمر رسیدہ افراد کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمات بھی درج کیے گئے تھے اور مرمو نے اس معاملے میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔
اپوزیشن امیدوار یشونت سنہا ایک سابق بیوروکریٹ ہیں۔ ایک زمانے میں وہ بی جے پی کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ بی جے پی کے امیدوار کے طور پر پارلیمانی ایوان زیریں لوک سبھا کے کئی مرتبہ رکن منتخب ہوئے۔ انہیں 1998 میں وزیر خزانہ اور سن 2002ء میں وزیر خارجہ بھی بنایا گیا تھا۔ مغربی بنگال میں سن 2021ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل وہ ریاست میں حکمران جماعت ترنمول کانگریس میں شامل ہو گئے تھے۔ بی جے پی چھوڑنے کے بعد یشونت سنہا مودی حکومت کی پالیسیوں کے سخت مخالف رہے ہیں۔