بھارتی صوبے کرناٹک میں 'حلال' کے خلاف قانون سازی متوقع
23 دسمبر 2022کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے معاملے پر ملک گیر سطح پر پیدا ہونے والے زبردست تنازع کے بعد ریاست اب ایک اور تنازع کے جانب بڑھ رہی ہے۔
کرناٹک میں ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن اسمبلی روی کمار نے اسمبلی کے رواں اجلاس میں حلال سرٹیفکیشن پر پابندی عائد کرنے کے لیے ایک نجی بل پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعلی باسواراج بومئی اور پارٹی کے دیگر اراکین نے اس بل کو منظور کرانے کی تائید کردی ہے۔
یہ متنازع بل ایسے وقت پیش کیا جا رہا ہے جب ریاست میں اگلے برس اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اپوزیشن کانگریس نے اس بل کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لہذا ریاست میں ایک بار پھر سخت سیاسی اور سماجی کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔
ہندو 'حلال' چیزیں استعمال نہ کریں، سنگھ پریوار کا مشورہ
اس سے قبل ریاست کے ایک چھوٹے سے شہر میں پیدا ہونے والے حجاب پر پابندی کے تنازع نے ملک گیر صورت اختیار کرلی اور یہ معاملہ اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
حلال کا تنازع کیا ہے؟
بی جے پی کے رکن اسمبلی روی کمار کا کہنا ہے کہ بھارت میں اشیاء خورد و نوش کے سرٹیفیکیشن کے لیے واحد حکومتی ادارہ ایف ایس ایس اے آئی (Food Safety and Standards Authority of India) ہے لہذا صرف اسی کی طرف سے جاری کردہ سند کو تسلیم کیا جائے اور اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے نجی اداروں کی جانب سے سرٹیفکیشن کو بند کردیا جانا چاہئے۔
اشیاء خورد و نوش ایکسپورٹ کرنے والی بھارتی کمپنیوں کی پریشانی یہ ہے کہ 100 سے زائد ملکوں میں انہیں اپنی تجارت کے لیے حلال سرٹیفکیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے بند کردینے سے ان کا بھاری نقصان ہوگا۔ لہذا وہ پرائیوٹ اداروں کی طرف سے جاری کردہ حلال سرٹفیکیشن استعمال کرتی ہیں۔
روس ميں حلال اشياء کیوں فروغ پا رہی ہیں؟
حتیٰ کہ یوگا گرو اور ہندوتوا کے زبردست علمبردار بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی نے بھی اسلامی ملکوں میں اپنے بعض پروڈکٹس فروخت کرنے کے لیے حلال سرٹیفکیٹ لے رکھا ہے۔
'اقتصادی جہاد' کا الزام
بی جے پی کے رہنما روی کمار کا الزام ہے کہ حلال سرٹیفکیشن اور بالخصوص جانوروں کے اسلامی طریقہ کے مطابق ذبیحہ کے لیے سرٹیفکیشن حاصل کرنے کی شرط دراصل "اقتصادی جہاد" ہے۔
بی جے پی کے علاوہ آر ایس ایس سے وابستہ دیگر تنظیمیں مثلاً ہندو جاگرتی سمیتی، شری رام سینا، بجرنگ دل وغیرہ بھی حلال کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ انہوں نے ریاست میں کئی مقامات پر مظاہرے کیے اور ہندووں سے اپیل کی کہ وہ مسلم دکانداروں سے حلال گوشت نہ خریدیں۔
سن2020 میں اکھنڈ بھارت مورچہ نامی ایک تنظیم نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے حلال طریقے سے ذبیحہ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن عدالت نے اس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت لوگوں کے کھانے پینے کے اطوار میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
’یہ سب سیاسی کھیل ہے‘
اپوزیشن کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ بی جے پی دراصل ریاست میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اس طرح کے غیر ضروری تنازعات کھڑا کرتی رہتی ہے۔
کانگریس کے رہنما یو ٹی قادر کا کہنا تھا کہ چونکہ اگلے سال ریاست میں انتخابات ہونے والے ہیں اور عوام بی جے پی کی نااہلی سے ناراض ہیں اس لیے وہ ایک بار پھر'ہندوتوا کارڈ' کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بھارت میں اب آئس کریم اور مسلم ڈرائیور بھی شدت پسند ہندوؤں کے نشانے پر
کانگریسی رہنما نے کہا، "ہم بی جے پی کی حکمت عملی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، وہ اپنی ناکامیوں اور بدعنوانیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ حلال مخالف بل کا مقصد ووٹروں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسم کرنا ہے۔ "
کون دیتا ہے حلال سرٹیفکیشن
بھارت میں کئی نجی ادارے حلال سرٹیفکیشن دیتے ہیں اور اس کے لیے وہ اچھی خاصی رقم بھی وصول کرتے ہیں۔
اشیائے خوردونوش کے علاوہ صابن، شیمپو، فیس کریم وغیرہ جیسی چیزوں کو بھی انہیں تیار کرنے کے طریقہ کار کی بنیاد پر حلال سرٹیفکیشن دیا جاتا ہے۔
بھارت میں جمعیت علماء ہند نے اس کے لیے باضابطہ ایک ٹرسٹ قائم کر رکھا ہے۔ اس ٹرسٹ کے سکریٹری نیاز احمد فاروقی کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ کسی بھی کمپنی کی تیار کردہ مصنوعات کو انتہائی باریکی سے جانچ کے بعد ہی حلا ل سرٹیفکیشن دیتا ہے۔ "ہم اس بات کی مکمل جانچ کرتے ہیں کہ کوئی بھی پروڈکٹ تیار کرتے وقت غیر اسلامی طریقہ استعمال نہ کیا گیا ہو۔ جانچ کرنے والی ٹیم میں کم از کم دو مسلم فوڈ ٹیکنالوجسٹ موجود ہوتے ہیں۔"
طالبان نے دُنبے کے خُصیوں کی فروخت اور انہیں پکانے پر پابندی عائد کر دی
انہوں نے مزید بتایا کہ متعدد مسلم ممالک کے آڈیٹر بھی حلال کی تصدیق کرنے کے لیے بھارت آتے رہتے ہیں اور ہم ان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔