بھارتی وزیر اعظم مودی کے دورہ کشمیر پر پاکستان کی نکتہ چینی
8 مارچ 2024پاکستان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ کشمیر کو متنازعہ خطے میں ''حالات کو معمول ظاہر کرنے کی بھارت کی کوششوں کا حصہ'' قرار دیا اور اس اقدام کو مسترد کر دیا۔
دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد پہلی بار وزیر اعظم مودی کا دورہ کشمیر
واضح رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر سے متعلق آئین کی دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد پہلی بار متنازعہ خطے کا گزشتہ روز دورہ کیا تھا۔
کشمیر کے معاملے پر بھارت اور پاکستان میں پھر نوک جھونک
اسلام آباد نے مودی کے دورہ کشمیر پر کیا کہا؟
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کے روز پریس بریفنگ کے دوران اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا، ''ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حالات کو معمول کے مطابق پیش کرنے کی کوششوں کا ایک پہلو ہے اور ایسی صورتحال میں سیاحت کو فروغ نہیں دیا جا سکتا، جہاں مقامی لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہو اور ان کے حقوق اور آزادیوں کو سلب کیا جا رہا ہو۔''
سچن تندولکر کا دورہ کشمیر اور'اکھنڈ بھارت' کی تشہیر
پاکستانی ترجمان نے دہشت گردی کی حمایت اور بھارت سے منسوب مبینہ ماورائے عدالت قتل کے الزامات سمیت ان اہم مسائل کو حل کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا، جن کے سبب ایک طویل عرصے سے دوطرفہ تعلقات متاثر رہے ہیں۔
'یوم کشمیر' پر پاکستانی رہنماؤں کا اظہار یکجہتی
زہرہ بلوچ نے کہا کہ کشمیر پاکستان کے سفارتی موقف میں ایک اہم نکتہ ہے اور واضح کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت میں کشمیر کا تنازعے کو ہمیشہ ترجیح حاصل رہے گی۔ انہوں نے کہا، ''جب بھی ایسی کوئی مصروفیات ہوں گی تو کشمیر ہمیشہ ترجیحات میں شامل ہو گا۔''
برطانوی سفیر کے پاکستانی کشمیر کے دورے پر بھارت کا سخت اعتراض
واضح رہے کہ مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پانچ اگست سن 2019 کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا تھا اور ریاست جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
اس وقت سے بھارتی کشمیر میں مودی حکومت کی انتظامیہ کا راج ہے اور مقامی سیاسی جماعتوں کا اس میں کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے اور دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا دعوی کرنے والے ملک کے اس خطے میں تمام جمہوری سرگرمیاں پوری طرح سے معطل ہیں۔
امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پرامن، تعمیری تعلقات کا خواہاں
انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر میں میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے اکثر آواز اٹھاتی رہی ہیں، تاہم بھارتی حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔
نئی حکومت اور بھارت پاک تعلقات
جب زہرہ بلوچ سے نئی حکومت کی بھارت کے ساتھ تعلقات کی پالیسی کے بارے میں سوال کیا گیا، تو محترمہ بلوچ نے محتاط مگر رجائیت کے ساتھ جواب دیا۔
ان کا کہنا تھا، ''ملک اپنی نئی کابینہ کی تشکیل کے انتظار میں ہے اور نئے وزیر خارجہ کی تقرری کے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات کی رفتار کے ساتھ دیگر خارجی امور کی راہ بھی ہموار ہو سکے گی۔
ترجمان کا کہنا تھا، ''کابینہ کی تشکیل کا عمل ابھی باقی ہے اور ایک بار جب کابینہ قائم ہو جائے گی، تو ہمارے پاس خارجہ پالیسی اور پاکستان کے پڑوسیوں سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک سمت موجود ہو گی۔''
انہوں نے مزید کہا، ''اس کے بعد ہم اس سوال کا جواب دینے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے کہ آنے والے دنوں میں اس کا بھارت اور پاکستان کے تعلق سے کیا اثر پڑے گا۔''
پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش پر زور دیتے ہوئے انہوں نے بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ احترام اور برابری کی بنیاد پر بات کرنے کی ملک کے دیرینہ موقف کا اعادہ کیا۔
شہباز شریف نے مودی کا شکریہ ادا کیا
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کی جانب سے مبارک باد پیش کرنے کے دو روز بعد ان کا شکریہ ادا کیا۔
شہباز نے مودی کے مبارکباد کے پیغام کا جواب بھی بالکل اسی روکھے انداز میں دیا، جس طرح مودی نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں انہیں مبارک باد پیش کی تھی۔ انہوں نے لکھا، ''پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر میرے انتخاب پر مبارکباد کے لیے نریندر مودی آپ کا شکریہ۔''
اطلاعات کے مطابق شہباز شریف کو مودی کی مبارک باد کا جواب دینے کے لیے یاد دہانی کرائی گئی تب انہوں نے ایکس پر جواب دیا اور اسی لیے اس میں تاخیر ہوئی۔
جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کگلمین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''شہباز شریف کو مودی کی جانب سے مبارکباد پیش کرنے کی پوسٹ اور پھر شریف کی جانب سے اتنا ہی روکھا ردعمل، ہمیں وہ سب بتاتا ہے جو ہمیں بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی موجودہ حالت کے بارے میں معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کہ دونوں رہنما ان دنوں تعلقات کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔''
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)