بھارتی پنجاب میں کاروباری حالات سازگار نہیں ہیں، سنیل جین
30 جنوری 2012منہ میں پان اور گلے میں سونے کی موٹی سی چین پہنے ہوئے سنیل جین کا کہنا ہے کہ تقریباً روزانہ ہی بجلی چلی جاتی ہے اور انہیں اپنی دونوں فیکٹریوں میں کام روکنا پڑتا ہے۔ پلاسٹک بیگ بنانے کے ان کے دونوں کارخانے سال میں تیس لاکھ بھارتی روپوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ سنیل بتاتے ہیں کہ جیسے ہی بجلی جانے کی صورت میں جینریٹر چلانے پڑتے ہیں اور اس طرح اخراجات میں تین گناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک جانب تو حکومت اس مسئلے پر کان نہیں دھر رہی اور دوسری جانب خام مال پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا ہے: ’’ ہر جانب سے اخراجات بڑھ رہے ہیں اور منافع کم سے کم ہوتا جا رہا ہے‘‘۔ سنیل سوال کرتے ہیں کہ اس صورت حال میں کیا کیا جائے؟ کس طرح کاروباو چلایا جائے؟
ان کی دونوں فیکٹریاں لدھیانہ کے صنعتی علاقے میں قائم ہیں۔ سنیل کہتے ہیں کہ علاقے میں سڑکیں خراب ہو چکی ہیں اور جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں: ’’ایسی جگہ پر کس طرح کاروبار چل سکتا ہے؟ جہاں بجلی کے مسائل ہوں اور مزدور تلاش کرنا بھی ایک مسئلہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ حکومت گزشتہ پانچ برسوں سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے وعدے کر رہی ہے اور اب تو حالات یہ ہیں کہ دن میں 12 گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے۔‘‘
بھارت میں ہونے والی اقتصادی ترقی کا اثر ملک کی بیشتر ریاستوں میں تو دکھائی دیتا ہے لیکن کچھ حلقے کہتے ہیں کہ اس دوڑ میں پنجاب کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے سنیل جین جیسے بہت سے افراد اپنا کاروبار دوسری ریاستوں میں منتقل کر رہے ہیں، جہاں زمین سستی ہے، مزدور تلاش کرنے میں دشواری نہیں ہوتی اور کاروبار کے حوالے سے حالات بھی سازگار ہیں۔ 1960 اور 70 کی دہائی کی بات کی جائے تو بھارتی پنجاب کا ملکی اقتصادیات میں کوئی خاص کردار نہیں تھا۔ تاہم 1991ء میں آنے والے صنعتی انقلاب کے بعد یہاں کے حالات میں نمایاں تبدیلی آئی۔ اس وقت ریاست پنجاب میں اقتصادی شرح نمو6.6 فیصد ہے۔ تاہم یہ ابھی بھی ریاست گجرات اور مہاراشٹر سے پیچھے ہے، جہاں کی اقتصادی ترقی کی شرح 10فیصد ہے۔
رجائیت پسند افراد کا کہنا ہے کہ پنجاب میں حالات جلد ہی بہتر ہوں گے۔ ان کے بقول توانائی کے بہت سے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور اگر حکومت اپنے ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو 2013ء میں پنجاب کے پاس اضافی بجلی ہو گی۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: افسر اعوان