1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی پولیس مبینہ جنسی مجرم کی کھوج میں

عدنان اسحاق3 مئی 2016

بھارتی پولیس ایک ایسے شخص کی تلاش میں ہے، جس پر ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے اور بعد میں اسے موت کے گھاٹ اتارنے کا الزام ہے۔ اس واقعےکے بعد بھارت میں آبروریزی کے موضوع پر جاری بحث مزید سنجیدگی اختیار کر گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ih6M
تصویر: Getty Images/N. Seelam

بھارتی حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے جمعرات کے دن ایک تیس سالہ طالبہ کو اس کے گھر پر ہی جنسی حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ جنوبی ریاست کیرالا میں پیش آیا۔ پولیس انسپکٹر جنرل ماہیپال یادو کے مطابق ،’’مشتبہ شخص نے لڑکی پر حملہ کیا اور اسے انتہائی بیہیمانہ انداز سے قتل کر کے فرار ہو گیا۔‘‘ بتایا جاتا ہے کہ مقتولہ کا تعلق ایک ’’نچلی ذات‘‘ سے تھا۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ گھر میں رہتی تھی اور بعدازاں اس کی والدہ کو ہی اپنی بیٹی کی خون میں لت پت لاش ملی تھی۔ پولیس انسپکٹر یادو ہی اس معاملے کی چھان بین کر رہے ہیں۔

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو مزید بتایا کہ ملزم نے طالبہ کی جسم میں بہت ہی بے دردی سے کوئی اوزار بار بار داخل کیا، جس سے اس کی آنتیں تک باہر آ گئی تھیں۔ ان کے بقول پولیس کو شبہ ہے کہ ملزم نے قتل کرنے سے قبل طالبہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ تاہم اس سلسلے میں طبی دستاویز کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

Indien Polizei in Neu Delhi ARCHIVBILD
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Sharma

پولیس کے بیان کے مطابق مقتولہ اپنے قاتل کو پہلے سے جانتی تھی کیونکہ گھر میں زبردستی داخل ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں، ’’ کوئی تالا یا کنڈی نہیں توڑی گئی اور نہ ہی کسی دروازے یا کھڑکی کو زبردستی کھولنے کے نشانات ملے ہیں۔‘‘ بھارتی ذرائع ابلاغ اس واقعے کا 2012ء میں دارالحکومت نئی دہلی میں ایک چلتی ہوئی بس میں ایک طالبہ کے ساتھ ہونے والی اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعے کے مابین موازنہ کر رہے ہیں۔ چار سال قبل رونما ہونے والے اس واقعے میں بھی مجرموں سے بار بار ایک آہنی سلاخ طالبہ کے جسم میں داخل کی تھی۔

بھارتی حکومت کے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2014ء کے دوران آبروریزی کے 36 ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے تھے۔ تاہم انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ جنسی زیادتی کے متعدد واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔