بھارتی کشمیر کی سڑکوں پر فوج تعینات
18 ستمبر 2010فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنے ایک رپورٹر کے حوالے سے بتایا ہے کہ مرکزی شہر سری نگر کی اُس اہم شاہراہ پر فوجی دیکھے گئے ہیں، جو انتہائی سخت حفاظتی انتظامات والے ایئر پورٹ کی جانب جاتی ہے۔ مقامی باشندوں نے بتایا ہے کہ بڈگام کے وسطی حصے اور بارہ مولا کے دیہات میں بھی فوجی دیکھے گئے ہیں۔
فوج کو اِس سے پہلے آخری مرتبہ جولائی میں پولیس ا ور نیم فوجی دستوں کی مدد کے لئے متحرک کیا گیا تھا۔ تازہ ترین اقدام علٰیحدگی پسندوں کی زبردست ناراضگی کا باعث بن رہا ہے کیونکہ وہ ایسی کسی بھی کارروائی کی مخالفت کرتے ہیں، جو ہمالیہ کے اِس متنازعہ خطے پر قبضے کے احساس کو اور مستحکم کرتی ہو۔ اے ایف پی ہی سے باتیں کرتے ہوئے اہم علٰیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا، ’مزاحمتی تحریک کو دبانے اور کچلنے کے لئے اور اپنی آواز بلند کرنے کی ہمت کرنے والے لوگوں کو ہراساں کرنے کے لئے تمام اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔’
نئی دہلی حکومت کا تازہ اقدام اُس نئی حکمتِ عملی کا حصہ تصور کیا جا رہا ہے، جس کے تحت پولیس، نیم فوجی دستے اور مسلح افواج مل کر امن و امان قائم کریں گی۔ جون میں پُر تشدد ہنگامے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر 97 افراد مارے جا چکے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جمعہ سترہ ستمبر کو کم از کم تین افراد ہلاک اور 23 زخمی ہو گئے، جب سکیورٹی فورسز نے چھ مختلف مقامات پر اُن مظاہرین پر فائرنگ کی، جو کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دستوں پر پتھراؤ کر رہے تھے اور سرکاری عمارتوں اور گاڑیوں کو آگ لگا رہے تھے۔ پولیس کے مطابق مظاہرین کے پتھراؤ کے نتیجے میں کم از کم 20 سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہو گئے۔
پاکستان نے بھارت پر مظاہرین کے خلاف ’بے رحمانہ‘ طاقت استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی اقدامات کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’پاکستان بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے اندھا دھند استعمال اور بے رحمانہ کارروائیوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔‘
اُنہوں نے کہا کہ بھارت کشمیر میں بڑے پیمانے پر اور منصوبہ بندی کے ساتھ حقوقِ انسانی کی پامالی کا مرتکب ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے ہلاکتوں، گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کو ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بہت سے حصوں میں گزشتہ اتوار سے کرفیو نافذ چلا آ رہا ہے۔ مقامی باشندے شکایت کر رہے ہیں کہ کشمیری عوام کو ’اجتماعی سزا‘ دی جا رہی ہے اور کئی روز سے اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ جانے کی وجہ سے لوگوں کو خوراک اور ادویات کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سری نگر میں ہزارہا شہریوں نے ’ہماری قوم، اِس کے مستقبل کا فیصلہ ہم کریں گے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ممتاز علٰیحدگی پسند لیڈر یاسین ملک کے کزن کے لئے ہونے والی دعائیہ تقاریب میں شرکت کی، جو گزشتہ ماہ ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران لگنے والے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جمعرات کو چل بسا تھا۔
رپورٹ: امجد علی (خبر رساں ادارے)
ادارت: ندیم گِل