بھارتی کشمیر کے وزیر اعلیٰ بھی جوتے کی زد میں
15 اگست 2010بھارت کے 64 ویں یوم آزادی کے موقع پر اس تقریب میں نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے عمر عبداللہ سری نگر کے ایک سٹیدیم میں بھارتی پرچم لہرا رہے تھے کہ ایک نوجوان پولیس اہلکار نے اپنا ایک جوتا ان کی طرف پھینکا۔ یہ جوتا عمر عبداللہ کو لگنے کے بجائے ان کے سر کے اوپر سے ہوتا ہوا ان کے پیچھے کھڑے اہم مہمانوں کی صفوں کے قریب گرا۔
اس موقع پر جوتا پھینکنے والے پولیس اہلکار نے یہ نعرہ بھی لگایا کہ ’’کشمیری آزادی چاہتے ہیں۔‘‘ اس واقعے کے بعد چند ہی لمحوں میں عمر عبداللہ کے محافظین نے اس پولیس اہلکار کو اپنے قابو میں لے لیا، جسے بعدازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے حوالے کر دیا گیا۔ مختلف خبر ایجنسیوں کے مطابق بظاہر شرمندہ عمر عبداللہ نے بعد میں کہا کہ پتھروں سے نشانہ بنائے جانے سے بہتر ہے کہ جوتوں کا نشانہ بنا جائے۔ عمر عبداللہ پر سری نگر میں پندرہ اگست کی مرکزی سرکاری تقریب جیسے اجتماع میں جوتا پھینکے جانے کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ جوتا پھینکنے والا ملزم دراصل ایک ایسا پولیس اہلکار ہے، جس کا دماغی توازن درست نہیں ہے۔ یہ ملزم بانڈی پورہ کا رہائشی بتایا گیا ہے، جس کا نام عبد الاحد جان ہے۔
سری نگر پولیس نے یہ بھی کہا کہ عبدالاحد جان کو کچھ عرصہ قبل مجرمانہ سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار بھی کر لیا گیا تھا، اور وہ کچھ ہی عرصہ پہلے ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔عمر عبداللہ کی حفاظت پر مامور پولیس کے سپیشل ونگ کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ یہ چھان بین کی جا رہی ہے کہ یہ ملزم سری نگر سٹیڈیم میں وی آئی پی گیلری تک کیسے پہنچا۔ اس کی طرف سے ریاستی وزیر اعلیٰ کو نشانہ بنانے کے لئے جوتا پھینکے جانے کے بعد وی آئی پی گیلری میں یکدم بے چینی پھیل گئی تھی۔ عمر عبداللہ اس جوتے کا نشانہ بننے سے محض اتفاقیہ طور پر بچ گئے۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ نے اس تقریب کے حاضرین سے اپنا جو خطاب میں کیا، اس میں انہوں نے کہا کہ انہیں اس واقعے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، شکر ہے اس نوجوان نے جوتا پھینکا ہے، پتھر نہیں۔ بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں وادی کشمیر گزشتہ قریب دو مہینوں سے پرتشدد مظاہروں اور عوامی احتجاج کی ایک ایسی لہر کی زد میں ہے، جس دوران کم از کم ستاون افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مرنے والوں میں زیادہ تر کشمیری نوجوان ہیں، جو وادی کے مختلف شہروں میں پولیس کارروائیوں کے دوران مارے گئے۔ اہم سیاسی شخصیات پر احتجاجا جوتے پھینکنے کا سلسلہ دسمبر دو ہزار آٹھ میں ایک عراقی صحافی کی طرف سے اس دور کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتے پھینکنے کے واقعے سے شروع ہوا تھا۔ ابھی حال ہی میں پاکستانی صدر آصف زرداری پر بھی ان کے دورہ برطانیہ کے دوران ایک تقریب میں ایک جوتا پھینکا گیا تھا۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : عاطف توقیر