بھارتی یوم جمہوریہ اور آئین کی روح پر بڑھتے حملے
26 جنوری 2021اس پریڈ میں شامل فوج، نیم فوجی دستے، پولیس اور اسکولوں کے بچے رنگ برنگی پوشاکیں پہنے بینڈ باجے کے ساتھ ملک کی ملٹری اور ثقافتی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سڑک کے دونون اطراف کھڑے لاکھوں لوگوں کا دل موہ لیتے ہیں۔ غرض ایک تہوار کا سا سماں ہوتا ہے۔ اسی دن 1950ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کو منسوخ کر کے بھارت نے اپنا آئین نافذ کیا۔
آئین ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949ء کو آئین کو پانچ سال کی عرق ریزی اور بحث و مباحثے کے بعد منظوری دی تھی۔ یہ لکھا جانے والا دنیا کا سب سے طویل ترین آئین ہے۔ اسی آئین کی بدولت بھارت کو دنیا کی ایک 'ستحکم جمہوریت‘تسلیم کیا جاتا ہے۔ 1947ء میں بھارت کے علاوہ دیگر ممالک نے بھی آزادی حاصل کی تھی۔ مگر شاید بھارت واحد ملک ہے، جو تکثیریت، لاتعداد لسانی و مذہبی فرقوں کی موجودگی کے باوجود، ایک مستحکم اور کامیاب حکومت دینے میں کامیاب رہا۔ تنوع میں اتحاد کا مظہر آئین ہی شمال مشرق میں ناگالینڈ، منی پور یا آسام کو انتہائی جداگانہ تامل ناڈو یا کیرالا سے جوڑتا ہے۔
مگر اب کئی حلقوں سے آئین کو ازسر نو لکھنے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ چونکہ یہ آوازیں حکومت کے اندر اور اس کے قریبی حلقوں سے آ رہی ہیں، اسی لیے تشویش لاحق ہونا حق بجانب ہے۔ سوال ہے کہ اس کامیاب دستور کو، جس نے ذات پات اور مذہب کی تقسیم کے باوجود پچھلے ستر سالوں سے ملک کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے، بدلنے یا ازسر نو ترتیب دینے کی کیوں ضرورت ہے؟
اس آئین میں اب تک ایک سو سے زائد ترامیم ہو چکی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس کے لچک دار ہونے کا ایک ثبوت ہے۔ اوسطا ہر سات ماہ میں ایک ترمیم ہوئی ہے۔ حال ہی میں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک نئے آئین کا شوشہ چھوڑ کر تشوش میں مزید اضافہ کیا۔
یہ بھی پڑھیے:
'بھارتی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی منصوبہ بندی ‘
1998ء میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی پہلی بار اقتدار میں آئی، تو اس وقت اس کے انتخابی منشور میں آئین پر نظرثانی کرنا شامل تھا۔ لہذا سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ریٹائرڈ چیف جسٹس نارائین راو وینکٹ چلیا کی قیادت میں ایک کمیشن بھی تشکیل دیا تھا، جس نے دو سال سے زیادہ عرصے تک کام کر کے 249 سفارشات پیش کیں۔ چونکہ واجپائی ایک مخلوط حکومت کے سربراہ تھے، اس لئے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو اس کمیشن کے اختیار سے باہر رکھا گیا۔ ان سفارشات میں تعلیم اور معلومات کو ایک حق تسلیم کرنے کی شفارش کی گئی تھی، جس کو حکومت نے تسلیم کر کے قانون سازی کی۔ دیگر حکومتوں نے بھی ان سفارشات کو سراہا۔
مگر جب سے وزیرا عظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو واضع اور قطعی اکثریت حاصل ہوئی ہے، دستور کو ازسر نو لکھنے کی آوازیں بھی زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ آر ایس ایس تو بنیادی ڈھانچے یعنی سیکولرازم، ثقافتی، مذہبی اور لسانی تنوع کو تسلیم و برقرار رکھنے کی ہی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ اپنا ایک ملک، ایک کلچر، ایک زبان کا نظریہ نافذ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کا باشندہ پہلے ہندو ہے اور یہ ایک ثقافتی شناخت ہے۔ دستور کے مقدمہ میں درج سوشلسٹ، سیکولر الفاظ کو خارج کرنے کی مانگیں بھی حکومتی حلقوں کی طرف سے کی جا رہی ہیں۔ چونکہ آر ایس ایس بھارت کو ایک ہندو ریاست قرار دینے کی خواہش رکھتی ہے، لہذا بی جے پی کے کئی اراکین آئین سے سیکولر لفظ کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کی سیکولر لفظ اصل آئین کا حصہ نہیں تھا اور اسے سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور میں آئین میں ترمیم کر کے شامل کیا گیا تھا۔
حکومت ان آئینی شقوں کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو لسانی و مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کوکالعدم یا اسے دوبارہ تحریرکرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تبھی ممکن ہی، اگر سیاسی طور پر منتخب رہنما تانا شاہ یا ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں۔ متعدد حکومتوں نے وقتاﹰ فوقتاﹰ آئین میں دی گئی ضمانتوں یا بنیادی حقوق کو ختم کرنے کے لئے ترامیم کا راستہ اختیار کیا ہے۔ چند آئینی ماہرین نے مجھے بتایا کہ آئین پر نظر ثانی کرنے یا اسے دوبارہ لکھنے کے بجائے حکومت کے مشیر اگر ترامیم کا سہارا لیتے ہیں تو یہ کچھ زیادہ قابل گرفت نہیں ہو گا۔
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل اور اس کی آئینی شناخت کو ختم کر کے، پورے ملک میں ایک ٹیکس سسٹم یعنی جی ایس ٹی نافذ کرنا اور شہری قوانین میں ترمیم جیسے اقدامات کر کے حکومت نے پہلے ہی اس آئین کی تکثیری روح اور وفاقی ڈھانچے کو مسخ کرنے کی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
دستور سازی کے وقت اس کے خالقوں نے کہا تھا کہ بھارت ایک وفاق ہو گا، جہاں نظم و نسق اور مالی معاملات میں صوبوں کو اختیارات حاصل ہوں گے۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی اپنی پیدائش سے لے کر ہی صوبوں کو اختیارات دینے کی وکالت کرتی تھی اور ہر الیکشن سے قبل اپنے منشور میں صوبوں کو مزید اختیارات کی منتقلی کے وعدے کرتی تھی۔ مگر مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد تو اس کی روش ہی بدل گئی۔گزشتہ برسوں میں صوبے کمزور ہوتے جا رہے ہیں اور فنڈز کے لیے مرکز پر ان کا انحصار زیادہ ہو گیا ہے۔
یقیناﹰ آزادی ایک عظیم دولت اور بہت بڑی نعمت ہے۔ مگر بھارت جیسے معاشرے میں اس کو برقرار رکھنے کے لیے ایک جمہوری اور سیکولر دستور کا ہونا ضروری ہے۔ آج کے ماحول میں یقینی طور پر ایک طبقہ عوام سے آزادی سلب کرنا چاہتا ہے۔ اسی منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ سیکولر آئین ہے۔ دستور کے مطابق ملک کے تمام مذاہب کو عبادت و ریاضت کی مکمل آزادی بھی حاصل ہے۔ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے ایک طبقے نے ملک میں مذہبی اقلیتوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔
نہ صرف یہ کہ اقلیتوں کی عبادت میں رخنہ اندازی کی جا رہی ہے بلکہ ان کے کھانے پینے، رہن سہن کے طریقوں پر بھی اعتراض کیے جا رہے ہیں اور انہیں بدترین ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ محض گاؤکُشی روکنے کے نام پر اب تک درجنوں مسلمانوں کو درندگی اور بربریت کے ساتھ پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ شاید ان ہی حالات اور بھارت میں آئین کی بنیادی روح پر بڑھتے ہوئے حملوں کے تناظر میں پڑوسی ملک پاکستان کی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے اپنے بھارت کے آخری دورے کے درران پریس کلب آف انڈیا میں کہا تھا:
تم بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار توہارے
ارے بدھائی بہت بدھائی
پریت دھرم کا ناچ رہا ہے
قائم ہندو راج کرو گے
سارے الٹے کاج کرو گے
اپنا چمن تاراج کرو گے
تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا
پوری ہے ویسی تیاری
کون ہے ہندو کون نہیں ہے
تم بھی کرو گے فتویٰ جاری
ہوگا کٹھن یہاں بھی جینا
دانتوں آ جائے گا پسینا
جیسی تیسی کٹا کرے گی
یہاں بھی سب کی سانس گھٹے گی
بھاڑ میں جائے شکشا وکشا
اب جاہل پن کے گن گانا
آگے گڑھا ہے یہ مت دیکھو
واپس لاؤ گیا زمانہ
مشق کرو تم آ جائے گا
الٹے پاؤں چلتے جانا
دھیان نہ دوجا من میں آئے
بس پیچھے ہی نظر جمانا
ایک جاپ سا کرتے جاؤ
بارم بار یہی دہراؤ
کیسا ویر مہان تھا بھارت
کتنا عالی شان تھا بھارت
پھر تم لوگ پہنچ جاؤ گے
بس پرلوک پہنچ جاؤ گے
ہم تو ہیں پہلے سے وہاں پر
تم بھی سمے نکالتے رہنا
اب جس نرک میں جاؤ وہاں سے
چٹھی وٹھی ڈالتے رہنا