1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کا رتھ رکتا ہوا

جاوید اختر، نئی دہلی
11 دسمبر 2018

بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہوئے انتخابات میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو زبردست دھچکا لگا ہے اور کانگریس پارٹی کی ساکھ بحال ہوتی نظر آتی ہے۔ اس پیش رفت کے ملکی سیاست اور آئندہ سال کے عام انتخابات پر اثرات یقینی ہیں۔

https://p.dw.com/p/39sw6
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودیتصویر: Reuters

گوکہ ابھی حتمی نتائج سامنے نہیں آئے تاہم ووٹوں کی گنتی میں ابتدائی رجحانات اور اب تک اعلان شدہ نتائج سے یہ بات تقریباً طے ہے کہ کانگریس پارٹی مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ ان تینوں ریاستوں میں اب تک ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔
عام انتخابات سے قبل ’سیمی فائنل‘ سمجھے جانے والے ان علاقائی انتخابات کے نتائج آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات پر بھی زبردست اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔کانگریس پارٹی نے عملاً سیمی فائنل جیت لیا ہے اس لیے فائنل کے لیے اس کی انتخابی مہم مزید جارحانہ ہو سکتی ہے اور وہ اپوزیشن اتحاد کی قیادت کا دعویٰ کرنے میں پوری طرح حق بجانب ہو گی۔ دوسری طرف وزیر اعظم مودی کی  حکمران جماعت بی جے پی کی کامیابی کا جو سلسلہ 2014ء میں شروع ہوا تھا، وہ اب رکتا نظر آ رہا ہے اور اس پارٹی کو اب اپنی انتخابی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔

Indien Gujarat -  Rahul Gandhi
کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھیتصویر: IANS


ان انتخابات میں شمال مشرقی ریاست میزورم میں علاقائی جماعت میزو نیشنل پارٹی کو بڑی کامیابی ملی ہے۔ یہاں پہلے کانگریس کی حکومت تھی۔ تاہم بی جے پی کا شمال مشرق کی تمام ساتوں ریاستوں میں اپنی حکومتیں بنانے کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ تلنگانہ میں حکمراں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ کی قبل از وقت اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کرانے کی حکمت عملی کامیاب رہی ۔ ٹی آر ایس دو تہائی اکثریت حاصل کرتی نظر آرہی ہے۔ اس نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان اسمبلی انتخابات کے نتائج اگر متعلقہ حکومتوں کی کارکردگی اور اس کارکردگی کے خلاف کانگریس کی مؤثر انتخابی مہم کی ترجمانی کرتے ہیں، تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کانگریس آئندہ سال بھی عوام کی ’حکومت سے بیزاری‘ کو ہی کیش کرانے پر اپنا سارا زور لگائے گی۔

بھارت میں ماضی کا فیض آباد، آج آیودھیا میں تبدیل

ایسے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی اگر کانگریس کی یلغار کا سامنا کرنے کے لیے ایک بار پھر فرقہ وارانہ پلیٹ فارم ہی استعمال کرتی ہے اور نتیجہ ایک بار پھر تبدیلی کے حق میں ہوا، تو قومی سیاسی منظر نامہ یکسر بدل بھی سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی حکومت کرسچین مشیل، وجے مالیہ اور دوسرے ’بھگوڑوں‘ کو واپس لا کر اور بدعنوانی کے دیگر معاملات میں پکڑ دھکڑ کے اقدامات کے ذریعے کس حد تک ووٹروں کو متاثر کر پاتی ہے۔
بی جے پی کو جن صوبوں میں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، وہ بنیادی طور پر زرعی ریاستیں کہلاتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان ریاستوں میں بی جے پی کی ہزیمت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ان ریاستوں کے بدحال کسانوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار حکومت کے خلاف ووٹ کی شکل میں کیا ہے اور بی جے پی وعدوں اور نعروں سے ووٹروں کو لبھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

انتخابی نتائج کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ بھی رہا کہ کانگریس نے تلنگانہ میں وسیع تر اتحاد کے ذریعے کامیابی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن نہ صرف اس بڑے اتحا د کو شکست جھیلنا پڑی بلکہ کانگریس کے ایک سے زیادہ سینئر رہنماؤں کو بھی انتخابات میں شکست ہوئی۔ بی جے پی نے بھی تلنگانہ میں کامیابی کے لیے تمام حربے اپنائے تھے۔ اس نے ہندو مسلم کارڈ بھی کھیلنے کی کوشش کی۔

یو پی کے شعلہ بیان وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے تلنگانہ میں انتخابی جلسوں میں کہا تھا کہ اگر ان کی پارٹی جیت گئی، تو حیدر آباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر رکھ دیا جائے گا اور اسدالدین اویسی (مسلم مجلس اتحادالمسلمین کے صدر) کو تلنگانہ چھوڑ کر بھاگنے کے لیے اسی طرح مجبور ہونا پڑے گا، جیسے حیدر آباد کے نظام بھاگے تھے۔
اسمبلی انتخابات کے نتائج اپوزیشن کانگریس میں نئی روح پھونکنے کا کام کریں گے۔ آئندہ عام انتخابات سے پہلے کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی کے لیے یہ سب سے بڑی جیت ہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ راہول گاندھی کے کانگریس کی کمان سنبھالنے کے ٹھیک ایک سال بعد پارٹی کو یہ کامیابی ملی ہے۔ راہول گاندھی 11دسمبر 2017ء کو پارٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
ان نتائج کا اثر ملکی پارلیمان کے آج منگل گیارہ دسمبر کو شروع ہوئے سرمائی اجلاس پر بھی پڑے گا۔ آئندہ لوک سبھا الیکشن سے قبل یہ پارلیمان کا آخری اجلاس ہے اور حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج سے واضح ہو گیا ہے کہ مودی حکومت کو اہم بل منظور کرانے میں کافی دشواری پیش آ سکتی ہے۔ ان میں تین طلاق کا بل بھی شامل ہے، جس میں تین طلاقوں کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ رافیل جنگی طیارہ سودے، سی بی آئی میں جاری چپقلش اور ریزرو بینک کے گورنر کے استعفے جیسے امور پر اپوزیشن پارٹیاں مودی حکومت پر سخت حملے کر سکتی ہیں۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔
انتخابات کے رجحانات اور نتا ئج سامنے آنے کے ساتھ ہی دونوں بڑی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس کی اعلیٰ سطحی میٹنگوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں