بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے
10 دسمبر 2008اس سلسلے میں تازہ اعداد وشمار عالمی غذائی عدم تحفظ کے موضوع پر جاری کردہ رپورٹ میں دیے گئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بھوک کے شکار انسانوں کی مجموعی تعداد کا 65 فیصد صرف سات ممالک میں آباد ہے جن میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔ دیگر ممالک چین، کانگو، انڈونیشیا اور ایتھوپیا ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے FAO نے اپنے ہیڈکوآٹرروم سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے دوران غذائی قلت کے شکار انسانوں کی تعداد میں 40 ملین کا اضافہ ہوا ہے اور اب یہ بڑھ کر 963 ملین ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے اس ادارے کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے نائب سربراہ الیگزینڈر میولر نےکچھ عرصہ قبل بتایا تھا:"2005 سے لے کر 2007 کے اوّائل تک بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد میں تقریبا75 ملین کا اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد 2008 کے اوّائل میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے پہلے کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس تعداد میں کہیں زیادہ اضافے کا خدشہ ہے۔"
ادارہ برائے خوراک و زراعت کے سربراہ Jacques Diouf نے رپورٹ کے اجرا کے موقع پر ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ غذائی قلت کے شکار انسانوں کی تعداد اسی طرح بڑھتی رہی تو اس ہزاریے کے لیے اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف 2015 کے بجائے 2150 میں ہی حاصل ہو سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال اخلاقی لحاظ سے قابل قبول نہیں۔ Jacques Diouf نے نومنتخب امریکی صدر باراک اوباما پر زور دیا کہ وہ غذائی بحران پر قابو پانے کے لیے مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے اس موضوع پر آئندہ سال ایک خصوصی سربراہی اجلاس منعقد کریں۔
FAO کے سربراہ نے بتایا کہ ترقی پذیر ممالک میں زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے سالانہ 30 بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق یہ رقم اس سے کہیں کم ہے جو ترقی یافتہ ملکوں نے گزشتہ کچھ عرصے میں اپنی گرتی ہوئی اقتصادی صورت حال کو سہارا دینے پر خرچ کی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کے باوجود بالخصوص ایشیا اور افریقہ میں زیادہ سے زیادہ انسان اچھی غذا سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
رپورٹ کے اجرا کے موقع پر FAO کے زرعی شعبے کے سربراہ Kostas Stamoulis نے کہا: "دُنیا میں عدم تحفظ کا شکار آبادی پر اشیائے خوردونوش کی بڑھتی قیمتیں انتہائی منفی اثر ڈال رہی ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ خوراک کا غیراستعمال شدہ ذخیرہ، قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور عالمی مالیاتی بحران سے خوراک کے تحفظ کو مسلسل خطرہ لاحق ہے جبکہ مقامی مارکیٹوں میں بیشتر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔