بھٹو کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کے خلاف سماعت شروع
13 اپریل 2011بدھ کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس صدارتی ریفرنس کی ابتدائی سماعت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔ اس مقدمے میں چاروں صوبوں سے عدالتی معاون بھی لیے جائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب اس مقدمے کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں فوجی آمر کی تاریخ نہیں دہرائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کی نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی بہت عزت تھی۔
بعد ازاں بابر اعوان نے سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے شہید قائد کا مقدمہ لڑنا ان کے لیے باعث اعزاز ہے۔ انہوں نے کہا:’’اگر میں وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائزہوتا تو استعفیٰ دے کر قائد اعوان کے خلاف ظلم کی داستان کے خاتمے کے لیے میدان میں اترتا۔‘‘
بھٹو ریفرنس کیس کی سماعت کے موقع پر بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ جبکہ عدالت کے باہر سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے اردگرد اور شاہراہ دستور پر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ سابق وزیر قانون خالد انور کا کہنا ہے کہ بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس نہ صرف بہت سے آئینی سوالات کو جنم دے گا بلکہ اس کے سیاسی مضمرات بھی ہوں گے۔
ادھر ڈوئچے ویلے کے پاس موجود پندرہ صفحات پر مشتمل صدارتی ریفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی مقدمے سے متعلق 27 نکات اٹھائے گئے ہیں۔ اس ریفرنس کے متن کے مطابق بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ ایک فوجی بغاوت کا نتیجہ تھا۔ بھٹو سے پہلے وعدہ معاف گواہی پر پھانسی دینے کی روایت پاکستان میں نہیں تھی البتہ قیام پاکستان سے پہلے بھگت سنگھ کو بھی وعدہ معاف گواہی پر سزا دی گئی تھی۔ فوجی آمر کے منتخب کردہ چار ججوں کے فیصلے کے بعد وعدہ معاف گواہی کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔
سابق وزیر قانون بابر اعوان کے ہاتھوں تحریر کیے گئے اس ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ بھٹو کو پھانسی دینے والے بینچ میں شامل جسٹس نسیم حسن شاہ عدالت پر دباؤ کا اعتراف کر چکے ہیں۔ جسٹس شاہ نے ثابت کیا کہ بھٹو کو پھانسی جنرل ضیاء الحق کے حکم پر ہوئی تھی۔ ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کا اعتراف ان کے اپنے آئینی حلف کی خلاف ورزی اور ان کے خلاف غداری کے مقدمے کا متقاضی ہے۔ ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ بھٹو کو پھانسی کی سزا براہ راست ہائیکورٹ نےدی اور اس طرح وہ اپنی سزا کے خلاف اپیل کے مرحلے سے محروم ہو گئے۔ اس ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق بھٹو کے خلاف تعصب رکھتے تھے۔
سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی مزید سماعت جمعرات کو ہوگی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ 32 سال پرانے مقدمے کی دوبارہ سماعت نہ صرف انتہائی اہمیت کی حامل ہے بلکہ اس دوران ماضی کے کئی اہم سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھنے کی توقع ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی