’بھیک مانگ لیں، غیرقانونی طور پر یورپ نہ جائیں‘
25 جولائی 2023پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ٹرالی پر ریت ڈالتے ہوئے محمد نعیم بٹ نے بتایا کہ انہوں نے بہتر زندگی کے لیے یورپ جانے کا ارادہ اس وقت ترک کیا، جب گزشتہ ماہ یونان کے پانیوں میں سینکڑوں پاکستانیوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع سامنے آئی تھی۔
اس واقعے میں ہلاک ہونے والے تقریبا 350 پاکستانیوں میں سے 24 کا تعلق محمد نعیم کے آبائی علاقے کھوئی رٹہ سے تھا۔ نعیم کہتے ہیں، ''اب میں پیچھے مڑ کر دیکھوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے، جو خطرہ مول لیا تھا، وہ بہت بڑا تھا۔‘‘
محمد نعیم کا شمار ان درجنوں پاکستانیوں میں ہوتا ہے، جو غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے لیے لیبیا میں موجود تھے لیکن کشتی حادثے کا سن کر انہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ وہ کہتے ہیں، ''زندگی اس کا نام ہے کہ اپنے بچوں اور شریک حیات کے ساتھ معیاری وقت گزارا جائے نہ کہ آپ کے پاس بہت زیادہ رقم موجود ہو۔‘‘
محمد نعیم نے یورپ جانے کے لیے دوستوں اور رشتہ داروں سے پیسے ادھار لیے جبکہ ان کے اہلیہ نے اپنا زیور بھی بیچ دیا تھا تاکہ بائیس لاکھ کی خطیر رقم جمع ہو سکے۔
ان کے لیے سفر کا آغاز آسان تھا۔ وہ پاکستان سے بذریعہ ہوائی جہاز دبئی سے ہوتے ہوئے مصر پہنچے اور پھر وہاں سے لیبیا گئے۔ سفر کی تمام تر مشکلات وہاں سے شروع ہوئیں۔ انہوں نے تقریباً دو ماہ وہاں ایک خستہ حال کیمپ میں گزارے، جہاں تقریبا 600 دیگر تارکین وطن بھی موجود تھے۔
یہ سبھی اس انتظار میں تھے کہ ایک بحری جہاز پر بٹھا کر انہیں بحیرہ روم پار کروا دیا جائے گا۔ لیکن ہوا یوں کہ انہیں مچھیروں کی ایک کشتی پر بٹھا دیا گیا، جو لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ یہ کشتی چھ روز تک سمندر میں ہی گھومتی رہی اور پھر لیبیا کے ساحلی محافظوں نے ہی انہیں پکڑ لیا۔
انہیں واپس لیبیا لایا گیا اور پھر جیل میں بند کر دیا گیا۔ محمد نعیم وہ مشکل وقت یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ''انہوں نے ہمیں صرف اتنی خوراک دی کہ ہم بس زندہ رہ سکتے تھے، میکرونی یا ابلے ہوئے چاولوں کی ایک پلیٹ پانچ لوگوں میں بانٹ دی جاتی تھی۔‘‘
محمد نعیم کے مطابق وہ بہت ظالم لوگ تھے۔ یونان میں کشتی ڈوبنے کی خبر انہیں جیل میں ہی ملی تھی، جس نے انہیں مزید افسردہ اور مایوس کر دیا تھا۔
دوسری جانب نعیم بٹ کا خاندان لاعلم تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے؟ ان کی اہلیہ مہوش مطلوب بتاتی ہیں، ''میں ایک ہفتے تک، جس درد اور تکلیف سے گزری ، وہ ناقابل بیان ہے۔‘‘ اکتیس سالہ مہوش کا افسردہ لہجے میں کہنا تھا، ''مجھے ایسا لگا، جیسے میری پوری دنیا میرے سامنے بکھر گئی ہو۔‘‘
آخرکار نعیم جیل سے باہر آ گیا اور اس نے اپنے اہلخانہ سے رابطہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ زندہ ہے۔
نعیم کی 76 سالہ والدہ رضیہ لطیف کہتی ہیں کہ وہ اپنے اس فیصلے پر بہت شرمندہ ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو اس طرح غیرقانونی طریقے سے یورپ بھیجنے کی کوشش کی، ''ہم نے سوچا کہ دوسرے سبھی یورپ جا رہے ہیں تو کیوں نہ اسے بھی بھیج دیا جائے۔‘‘
وہ مزید بتاتی ہیں، ''اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ اتنا مشکل ہے تو ہم بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے۔‘‘
کشمیر میں انسانی حقوق فورم گروپ سے وابستہ ظفر اقبال غازی کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ باہر جانے والے بڑے بڑے مکانات بناتے ہیں اور پھر باقی لوگ بھی اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح بیرون ملک بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حمزہ بھٹی سعودی عرب میں ڈرائیور تھے اور ماہانہ تقریبا دو لاکھ روپے کماتے تھے۔ یہ ان کے بیوی اور بچوں کے لیے کافی تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے بھی لیبیا کے راستے ہی یورپ پہنچنے کی کوشش کی۔
حمزہ بھٹی بھی نعیم بٹ کے ساتھ جیل میں تھے اور انہیں بھی کشتی حادثے کی خبر لیبیا کی جیل میں ہی ملی تھی۔ حمزہ بتاتے ہیں، ''یہ میرا لالچ تھا، جو مجھے موت کے دہانے پر لے گیا تھا۔‘‘
ہنرمند افراد کے جرمنی آنے میں رکاوٹ کیا ہے؟
ظفر اقبال غازی کہتے ہیں کہ گزشتہ برس تقریبا 175 نوجوان کھوئی رٹہ چھوڑ کر یورپ کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یونان کشتی حادثے کے بعد، جو حالیہ وقفہ پیدا ہوا ہے، یہ فقط عارضی ہے۔
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مطابق گزشتہ ماہ سے جاری کریک ڈاؤن کے بعد سے 69 اسمگلنگ ایجنٹوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائی مشکل ہو گی۔
ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''چیلنج یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر نوجوانوں کے پاس دبئی کے لیے درست ویزے تھے۔‘‘ اس اہلکار کا بھی کہنا تھا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے اور یونان حادثے کے بعد بھی اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی۔
ایجنٹوں نے نام رپورٹ نہ کرنے کی شرط پر مہوش اور ان کے خاوند کو کچھ رقم واپس کر دی ہے۔ تاہم مہوش کہتی ہیں کہ ان کے شوہر اب کبھی بھی دوبارہ یورپ جانے کی کوشش نہیں کریں گے، ''مجھے اپنا زیور کھونے کا افسوس نہیں اور جب تک وہ میرے ساتھ ہے، میں غربت میں رہنے پر راضی ہوں۔‘‘
ا ا / ش ر (اے ایف پی)