بہتر جرمن زبان، بہتر انضمام؟
11 اپریل 2019ایک طرف جرمنی کی بہت سی کمپنیوں کو ہنرمند افرادی قوت کی تلاش ہے اور دوسری طرف ہزاروں تارکیں وطن مناسب روزگار چاہتے ہیں۔ اکثر اوقات کمپنیوں کو مطلوبہ پیشہ وارانہ مہارت کے حامل تارکین وطن مل بھی جاتے ہیں لیکن جرمن زبان کے صحیح طور پر نہ آنے کی وجہ سے درمیان میں ’ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے‘ کی رکاوٹ موجود رہتی ہے۔
حال ہی میں جرمن حکومت کی جانب سے ایک رپورٹ عام کی گئی تھی، جس کے مطابق ہر دوسرا تارک وطن جرمن زبان یا ’انضمام کا کورس‘ مکمل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جرمنی کی وفاقی وزیر برائے سماجی انضمام ایلکے برائٹن باخ کا ملک کے سولہ وفاقی صوبوں میں تارکین وطن کے انضمام کے ذمے دار عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’زبان سب کچھ ہے۔ زبان کے بغیر ملازمت اور ترقی ناممکن ہے، زبان کے بغیر اس معاشر ے کا حصہ نہیں بنا جا سکتا۔‘‘
جمعرات اور جمعے کو برائٹن باخ اور ان کی ٹیم صوبائی عہدیداروں کو یہ مشاورت فراہم کریں گے کہ وہ تارکین وطن کو کس طرح ایک اچھا مستقبل فراہم کر سکتے ہیں۔ اس مرتبہ تارکین وطن کے انضمام سے متعلق سالانہ کانفرنس کا انعقاد دارالحکومت برلن میں کیا جا رہا ہے اور اس کا نصب العین ’پہنچیں، حصہ لیں اور قیام کریں‘ رکھا گیا ہے۔ رواں برس بھی جرمن حکام کی نظر میں جرمن زبان کا مسئلہ تارکین وطن کے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ جرمن وزیر برائے سماجی انضمام کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے وفاقی، ریاستی اور مقامی حکومتوں کے درمیان اتفاق رائے کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مختلف پروگرام تمام صوبوں میں ایک جیسے ہونے چاہییں اور تارکین وطن کے انضمام کے لیے اب مزید فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔
خاتون وزیر برائٹن باخ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ملک میں آنے والے ہر ایک مہاجر کو جرمن زبان کے کورسز کروائے جائیں۔ جرمن زبان کے ایسے کورسز، جن میں جرمن معاشرے اور سماجی روایات سے متعلق معلومات فراہم کی جاتی ہیں، صرف ان تارکین وطن کو کروائے جاتے ہیں، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں قبول ہو چکی ہیں یا پھر ایسے تارکین وطن کو، جن کی سیاسی پناہ کی درخواست قبول ہونے کے مواقع زیادہ ہیں۔
حکومتی رپورٹوں کے مطابق جرمن زبان کے کم علم کی وجہ سے افغانستان، ایریٹیریا، عراق، ایران، نائجیریا، پاکستان، صومالیہ اور شام کے صرف ایک چوتھائی مہاجرین ہی کوئی ملازمت حاصل کر پاتے ہیں۔
ا ا / ع ا