بیتھوفن سے عمرو عقبہ تک، کیا چیز موسیقی کو انقلابی بناتی ہے؟
اس سال جرمن شہر بون کے بیتھوفن فیسٹیول کا عنوان ہے، ’انقلابات‘۔ اس دوران نہ صرف موسیقی پر انقلابات کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا بلکہ خود موسیقی میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں کو بھی موضوع بنایا جائے گا۔
موسیقی انقلاب کے لیے
بہت سے ملکوں میں موسیقاروں نے انقلاب کے لیے شاہکار تخلیق کیے ہیں۔ خاص طور پر 1789ء کے انقلابِ فرانس نے موسیقاروں کی ایک بڑی تعداد پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ کئی دیگر انقلابات نے بھی موسیقی کو متاثر کیا۔ نو ستمبر سے لے کر نو اکتوبر تک بون میں منعقد ہونے والے بیتھوفن میلے کو ’انقلابات‘ کا عنوان دیا گیا ہے اور اس میں اس بار ایسے چند شاہکار پیش بھی کیے جائیں گے۔
’یَنکی ڈُوڈل‘، امریکی آزادی کا نغمہ
آج بھی ’یَنکی ڈُوڈل‘ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے حب الوطنی پر مبنی فوک گیتوں میں سے مشہور ترین گیت ہے۔ یہ اُن امریکی انقلابیوں کا گیت ہے، جو برطانوی سامراج سے الگ ہونا چاہتے تھے اور 1776ء میں اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہو گئے۔ اعلانِ آزادی کی عبارت تھامس جیفرسن نے لکھی تھی اور اُس میں تمام انسانوں کی آزادی اور برابری پر زور دیا تھا۔ یہ انقلابِ فرانس کا نقطہٴ آغاز بھی تھا۔
نپولین کی تاجپوشی پر مِیُول کی شاہکار موسیقی
ایتیئن نِکولا مِیُول کو تو کہا ہی انقلابی موسیقار جاتا ہے۔ اُن کا نپولین کے کہنے پر تخلیق کردہ ’بیداری کا گیت‘ اپنے دور کے مشہور ترین ترانوں میں سے ایک کہلایا۔ تاہم نپولین کو اپنی تاجپوشی پر مِیُول کی تخلیق کردہ کمپوزیشن میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اِدھر جرمن موسیقار لُڈوِک فان بیتھوفن اپنی پانچویں سمفنی تخلیق کرتے ہوئے مِیُول سے متاثر ہوئے۔ خود مِیُول کی کمپوزیشن سے آج کم ہی لوگ واقف ہیں۔
کیروبِینی کا ’ریسکیو اوپیرا‘
انقلابی موسیقار لُوئیجی کیروبِینی کے سن 1800ء میں ’واٹر کیریئر‘ کے نام سے تخلیق کردہ ’ریسکیو اوپیرا‘ کو زبردست کامیابی ملی تھی۔ ایسے کسی اوپیرا میں ایک ایسے شخص کو بچانے پر بات ہوتی ہے، جسے غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ اس میں ایک ماشکی اپنے جیسی ترقی پسندانہ سوچ کے حامل اور سیاسی تعاقب کے شکار ایک نواب کی مدد کرتا ہے۔ بیتھوفن کا ’فیڈیلیو‘ اسی اوپیرا کو سامنے رکھ کر تخلیق کیا گیا تھا۔
بیتھوفن کا ایروئیکا
1803ء میں بیتھوفن کی تیسری سمفنی ’سنفیونیا ایروئیکا‘ طویل بھی تھی اور اپنی قوتِ اظہار کے اعتبار سے اتنی بھرپور تھی کہ جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ صحیح معنوں میں ایک انقلابی کمپوزیشن تھی، جو بیتھوفن نے نپولین کی شان میں لکھی۔ جب نپولین نے شہنشاہی کا تاج پہن لیا اور آزادی، مساوات اور اخوت جیسی مثالی قدروں سے منہ موڑ لیا تو بیتھوفن نے بھی اس سمفنی پر سے نپولین کا نام ہٹا دیا۔
انقلابِ اکتوبر اور پروکوفییف کا راگ نامہ
سیرگے پروکوفییف نے 1937ء میں انقلابِ اکتوبر کے بیس سال مکمل ہونے پر پانچ سو سازندوں کے لیے ایک کورَس سمفنی لکھی۔ اس میں توپوں کی گھن گرج، مشین گن کی فائرنگ اور الارم کی گھنٹی وغیرہ کو بھی استعمال کیا گیا تھا۔ اُس دور کے حکمران سٹالن نے مارکس، اینگلز اور لینن کی تحریروں سے سجے اس زبردست فن پارے کو پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس شاہکار کو کہیں 1966ء میں قطع و بُرید کے بعد پیش کیا گیا۔
شوئنے بیرگ کا نپولین کے لیے جذباتی گیت
شاعر اور مجاہدِ آزادی لارڈ بائرن نے 1814ء میں نپولین کے مستعفی ہونے پر ایک جذباتی گیت لکھا، جس میں اُس نے اس شہنشاہ کا مذاق اڑایا۔ 1942ء میں نازی سوشلسٹوں کے زمانے میں آرنولڈ شوئنے بیرگ نے اسی گیت کو پھر سے لکھا۔ موسیقی کے ایک نقاد کے خیال میں اس گیت میں شوئنے بیرگ نے نپولین اور ہٹلر کا موازنہ کیا تھا۔ سیاسی سوچ کے حامل اس موسیقار نے اس تبصرے کو رَد نہیں کیا تھا۔
1968ء: بیٹلز اور انقلاب
’انقلاب‘ وہ پہلا گیت تھا، جسے بیٹلز نے اپنی ’وائٹ البم‘ کے لیے ریکارڈ کیا۔ جان لینن (بائیں) نے یہ گیت 1968ء میں اپنے بینڈ کے دورہٴ بھارت کے موقع پر لکھا تھا۔ جان لینن نے یہ گیت پیرس میں طالب علموں کے ہنگاموں، جنگِ ویت نام اور مارٹن لُوتھر کِنگ پر قاتلانہ حملے سے متاثر ہو کر لکھا تھا۔ بیٹلز کا نغمہٴ انقلاب ایک ایسے پُر امن انقلاب کے بارے میں تھا، جس میں کوئی پُر تشدد انتہا پسند موجود نہیں تھے۔
زیڈا روئیڈر اور ’عرب اسپرنگ‘
ترک خاتون پیانو نواز زیڈا روئیڈر کہتی ہیں کہ عرب دنیا میں احتجاجی تحریکوں کے بارے میں تمام تر معلومات بڑی حد تک سنسر شُدہ تھیں۔ چنانچہ اُنہوں نے تیونس، مصر (عمرو عقبہ)، شام، بحرین اور ترکی سے موسیقاروں کو موسیقی کی زبان میں اس امر کا اظہار کرنے کی دعوت دی کہ اُن کی نظر میں ’عرب اسپرنگ‘ نامی تحریک کا مطلب کیا تھا۔ یہ کنسرٹ پہلی مرتبہ اٹھارہ ستمبر کو بون میں بیتھوفن میلے کے دوران پیش کیا جائے گا۔