بیجنگ کاچینی نوادرات کی واپسی کا مطالبہ
3 نومبر 2010ماہرین کا خیال ہے کہ چین نے ان تاریخی نوادرات کی واپسی کا مطالبہ تو کر دیا ہے لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونے کا مکان زیادہ نہیں ہے۔ لندن کا وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم اور پیرس کا فوجی میوزیم ایسے اداروں کی محض دو مثالیں ہیں جہاں چین سے لوٹے گئے بہت سے نوادرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
انیسویں صدی کے وسط میں یہ قیمتی باقیات اور فن کے نمونےچینی چِنگ بادشاہوں کے دور کی ایک شاہی رہائش گاہ سے لوٹے گئے تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ مغربی ملکوں کے عجائب گھر یا تاریخی باقیات جمع کرنے والے شائقین چین کے اس مطالبے پر کوئی توجہ دیں گے، اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔
آسٹریلیا میں سڈنی یونیورسٹی کے تاریخ کے ایک پروفیسر جان وونگ کہتے ہیں کہ بیجنگ حکومت نے ایسی قدیم باقیات کی واپسی کا مطالبہ کر کے ملک میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق چین سے باہر اس مطالبے پر کوئی بھی ایسا ادارہ یا فرد کوئی دھیان نہیں دے گا جس کے پاس چِنگ دور کی ایسی باقیات موجود ہوں۔
بیجنگ میں چِنگ شاہی خاندان کے ایک پرانے گرمائی محل میں لوٹ مار اس وقت ہوئی تھی جب برطانیہ اور فرانس کے فوجی دستوں نے دوسریOpium War کے دوران 1860میں 18 اور 19 اکتوبر کو اس محل پر دھاوا بول دیا تھا۔
چین میں اس واقعہ کو مغربی ملکوں کے فوجی دستوں کے ہاتھوں قومی سطح پر تذلیل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اور اس کی ہر سال باقاعدہ یاد بھی منائی جاتی ہے۔ 150 برس قبل برطانوی اور فرانسیسی دستوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے اس محل اور وہاں کی جانے والی لوٹ مار کے دوران تقریبا پندرہ لاکھ نوادرات پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔ بیجنگ کے اسی چِنگ پیلس کو فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو نے ایک عالمگیر عجوبے کا نام دیا تھا۔
بیجنگ کے اس محل میں لوٹ مار سے متعلق ایک کتاب کے مصنفBeranrd Brizay نے اس محل کی تباہی سے متعلق تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہاں سے لوٹے گئے نوادرات کے بارے میں چینی حکومت کے اعدادوشمار سراسر مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: افسر اعوان