بیجنگ یا واشنگٹن، پاکستان مشکل میں پڑ گيا
15 اکتوبر 2021پاکستان اور امریکا کے تعلقات اس وقت سے تناؤ کا شکار ہیں جب رواں برس اگست ميں طالبان نے افغانستان ميں اپنی حکومتی عمل داری قائم کی۔ گزشتہ کئی برسوں سے امریکا مسلسل پاکستان پر تنقید کر رہا ہے کہ پاکستان طالبان کا حامی ہے۔ جب سے امریکی صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوئے ہیں، تب سے انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ رابطہ بھی نہیں کیا۔ اس مناسبت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اب اپنی نگاہوں کا رخ موڑ کر بیجنگ کی جانب کر لیا ہے۔
طالبان کو سی پیک میں شرکت کی دعوت
تعلقات میں توازن کا دعویٰ
پاکستان حکومت کا اصرار ہے کہ وہ امریکا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ رواں برس جون میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ امریکا اور مغربی ممالک کا پاکستان پر دباؤ غیر منصفانہ ہے کہ وہ اپنے چین کے ساتھ تعلقات کو محدود کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک چینی تعلقات کی ہیت میں، جتنا بھی دباؤ ڈالا جائے، فرق نہیں پڑے گا اور ویسے بھی پاکستان کے سبھی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔
پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کا چینی پراجیکٹ
امریکا بارہا پاکستان کے چین پر مسلسل بڑھتے اقتصادی انحصار کو ہدفِ تنقید بنا چکا ہے۔ اس تناظر میں 'چین پاکستان اکنامک کوریڈور‘ یا سی پیک میں بیجنگ حکومت نے ساٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے عملی وعدے کر رکھے ہیں۔ سی پیک چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹوو‘ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔
سی پیک کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ملتوی: کیا چین کے ساتھ تعلقات بگڑیں گے؟
گزشتہ برس سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں سابق نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے سی پیک کے تحت ہاکستان کو فراہم کردہ چینی قرضوں کو ناقابلِ برداشت اور غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ پاکستان نے ان تنقیدی کلمات کو مسترد کر دیا تھا۔ ایلس ویلز کے بیان پر پاکستان میں چینی سفارت خانے نے کہا تھا کہ امریکا سی پیک کے حوالے سے خبط کا شکار ہے۔
اس صورت حال میں ایک پیش رفت یہ بھی ہے کہ افغانستان میں پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے افغانستان کی نئی قیادت سے گزشتہ ماہ ملاقات کر کے انہیں سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔
دوسری جانب اس وقت پاکستان کی داخلی سلامتی کی کمزور ہوتی صورت حال نے چینی سرمایہ کاری کے عمل کو سست کر دیا ہے اور بیجنگ اسلام آباد کے دو طرفہ تعلقات میں بھی گرم جوشی کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ چین نے پاکستان سے سلامتی کی صورت حال کو بہتر کرنے کا مطالبہ بھی کر رکھا ہے۔
واشنگٹن اور بیجنگ کی رسہ کشی میں پھنسا پاکستان
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم اٹلانٹک کونسل کے جنوبی ایشیائی امور کے تجزیہ کار شجاع نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور صرف ایک کی جانب جھکاؤ مناسب نہیں ہے۔ نواز کے مطابق چین پاکستان کا ایک ہمسایہ اور دوست ملک ہے جب کہ امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات تاریخی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے مفادات کے تناظر میں امریکا کے ساتھ تعلقات کو ازسرِ نو استوار کرنا چاہیے اور اسے نہ تو امریکا پر انحصار کرنا چاہیے نہ ہی اپنے معاملات کے حوالے سے امریکا کو فریب دینا مناسب ہے۔
سی پیک کا سب سے مہنگا منصوبہ سست روی کا شکار
ادھراسٹیمسن سینٹر نامی تھنک ٹینک کی مبصر ایلزبتھ تھریکیلڈ کا خیال ہے کہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور طالبان کی مسلسل حمایت جاری رکھنے پر بھی اسلام آباد کے بارے میں امریکی حکومت میں مایوسی نمودار ہو چکی ہے، خاتون تجزیہ کار کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بھی درست ہے کہ امریکا کو افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان کی حمایت درکار رہے گی۔
کیا چین پاکستان کے لیے امریکا کا متبادل ہے؟
ایلزبتھ تھریکیلڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکی حمایت و امداد ہمیشہ اہم رہے گی لیکن چین خطے میں پاکستان کا ایک کلیدی پارٹنر ملک ہے اور کسی بھی انداز میں پوری طرح امریکا کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ چین کی پاکستان کے لیے اقتصادی امداد کا حجم بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود اسلام آباد اپنے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو نظرانداز نہیں کر سکتا بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ایسے تعلقات استوار کرے کہ امریکی پابندیوں سے بچا رہے۔
پاکستان: چینی شہریوں کی گاڑی پر ایک اور خود کش حملہ
شجاع نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان کی امداد ختم کر کے امریکا نے اپنا اثر و رسوخ بھی محدود کر لیا ہے۔ نواز کے مطابق غیر ممالک میں آباد پاکستانی افراد کی مالی ترسیلات کا حجم امریکی امداد سے کہیں زیادہ اڑتیس ارب ڈالر کے قریب ہے جو پاکستانی معیشت کا ایک بڑا سہارا بھی ہے۔
ہارون جنجوعہ، اسلام آباد (ع ح/ع س)