بیرلسکونی کے خلاف تحاریک عدم اعتماد ناکام
14 دسمبر 2010آجکل اٹلی میں جاری شدید سیاسی بحران نے سلویو بیرلسکونی کو ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بنایا ہے۔ کہتے ہیں کہ سلویو بیرلسکونی اپنی پر اعتمادی کی وجہ سے دونوں ایوانوں میں اپنے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحاریک کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کامیابی سے اور کچھ ہو نہ ہو، سلویو بیرلسکونی کی شہرت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ایک جانب انہیں اطالوی سیاست میں ہر طرح کے بحرانوں سے حیرت انگیز طریقے سے بچ نکلنے والی شخصیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تو دوسری جانب وہ سیاسی طور پر بہت کمزور بھی ہو گئے ہیں۔ پارلیمان میں ان کے حق میں 314 جبکہ مخالفت میں311 ووٹ پڑے۔ اس سے قبل سینیٹ کے 308 ارکان میں سے 162 نے ان کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ایوانوں میں ان کی حمایت میں کمی آئی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ پیئر بیرسانی نے کہا کہ بیرلسکونی کی جیت بہت زیادہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ تاہم وہ اس وقت حکومت چلانے کے قابل نہیں ہیں۔
ایک پارٹی گرل کے باعث وہ اکتوبر کے مہینے سے مشکلات کا شکار ہوئے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مراکشی لڑکی کو ٹیلیفون کرتے ہوئے اسے وزارت انصاف کی جانب سے اس کے خلاف ایک کارروائی سے آگاہ کیا تھا۔ اطالوی ذرائع ابلاغ کے مطابق بیرلسکونی اس سترہ سالہ لڑکی کو نہ صرف اپنی نجی محفلوں میں مدعوکیا کرتے تھے بلکہ اُنہوں نے ذاتی طور پر اُسے گرفتاری سے قبل آگاہ بھی کیا تھا۔
بیرلسکونی اپنی رنگین مزاجی کا اعتراف بھی کرتے رہے ہیں’’ میں ایک ایسی زندگی گزار رہا ہوں، جس میں، میں ہر وقت کام کرتا رہتا ہوں۔ اگر اس دوران میں کوئی خوبصورت نسوانی چہرہ دیکھتا ہوں، تو کیا برا ہے۔ میرے خیال میں ایک خوبصورت لڑکی کو پوجنا ہم جنس پرست ہونے سے بہتر ہے‘‘
اسی طرح وزیراعظم بیرلسکونی نے2009ء میں ہونے والے یورپی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے حکمران جماعت کی جانب سے تین اطالوی حسیناؤں کو برسلز بھیجا تھا۔
گزشتہ مارچ میں وزیراعظم بیرلسکونی کی جماعت PdL سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر کو مافیا سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ ان پر کالے دھن کو سفید کرنے اور انتخابات میں دھاندلی کراونے کا الزام ہے۔ اس سے قبل ایک مافیا گروپ کے سربراہ کی جانب سے بم دھماکوں کے الزام میں سلویو بیرلسکونی کو عدالت میں بھی پیش ہونا پڑا تھا۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : امجد علی