1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیلجیم میں نقاب پر پابندی درست ہے، یورپی عدالت کا فیصلہ

William Yang/ بینش جاوید AFP
11 جولائی 2017

یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے بیلجیم کی حکومت کی جانب سے عوامی مقامات پر پورے چہرے کے نقاب پر لگائی جانے والی پابندی کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ اس پابندی کے خلاف دو مسلم خواتین نے درخواست دائر کی تھی۔

https://p.dw.com/p/2gLZR
Frankreich Burkaverbot in Paris Gericht 2011
تصویر: Imago

فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں قائم یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کی طرف سے سنائے جانے والے اس فیصلے کے مطابق اس پابندی کا مقصد معاشرتی میل ملاپ کو یقینی بنانا اور حقوق اور دیگر افراد کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے اور یہ کہ یہ پابندی ایک جمہوری معاشرے کے لیے ضروری ہے۔

بیلجیم میں پورے چہرے کے نقاب پر پابندی اُس قانون کے تحت عائد کی گئی تھی، جو جون 2011ء میں منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت عوامی مقامات پر اس طرح سے چہرے پر مکمل یا جزوی نقاب کے ساتھ جانا منع ہے، جو متعلقہ فرد (خاتون) کو ناقابل شناخت بنا دے۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر جرمانے یا سات دنوں تک جیل کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

فرانس وہ پہلا یورپی ملک تھا، جس نے اپریل 2011ء میں اپنے ہاں پورے چہرے کے نقاب پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق فرانس میں اس پابندی کے خاتمے کے لیے دائر کی گئی ایک درخواست کو 2014ء میں ہی رد کر چکی ہے۔ اس درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ پابندی مذہبی آزادی کے خلاف اور متعلقہ فرد کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

بیلجیم کی طرف سے عائد کردہ اس پابندی کے خلاف درخواست بیلجیم ہی کی ایک خاتون مسلم شہری سمیعہ بلقاسمی اور ایک مراکشی نژاد مسلمہ یامینا اوسار کی طرف سے یورپی عدالت میں دائر کی گئی تھی۔ انہوں نے اپنی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے نقاب لیتی ہیں، اور اس قانون سے ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جو کہ ایک امتیازی قانون بھی ہے۔

Europaeischer Gerichtshof für Menschenrechte Strassburg
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق فرانس میں اس پابندی کے خاتمے کے لیے دائر کی گئی ایک درخواست کو 2014ء میں ہی رد کر چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/w.Rothermel

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بیلجیم میں نقاب پر پابندی لگنے کے بعد بھی بلقاسمی نے نقاب لینے کا سلسلہ جاری رکھا تاہم سماجی دباؤ اور اس خوف کے باعث کہ انہیں جرمانہ ہو سکتا ہے، انہوں نے یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ تاہم اوسار کے مطابق انہوں نے اس فیصلے کے بعد اپنے گھر پر ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔