بیوی سے جبری جنسی تعلق، جرم جو جرم نہیں سمجھا جاتا
3 فروری 2022دنیا کی ہر زبان میں ’نہیں‘ کئی انداز سے بولا جاتا ہے اور ان سب کا مطلب 'نہ‘ ہی ہوتا ہے۔ تاہم ہمارے معاشرے میں ایک شادی شدہ خاتون کی 'نہیں‘ کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا شوہر، اس کی رضامندی کے بغیر اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے اور اسے جنسی زیادتی نہیں کہا جاتا۔ آزادی اور مساوات کی ضمانت دینے والا بھارتی آئین اسے جرم نہیں مانتا۔ بھارت کو 75 برس لگ گئے اس موضوع پر بحث کرنے کے لیے۔
نئے سال کا آغاز: بھارت کی فضاؤں میں انتخابات کی سرگرمیوں اور 'لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘، 'بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ جیسے نعروں کی گونج کے درمیان ایک نئی تان کانوں میں پڑ رہی تھی۔ بیوی کے ساتھ جبری ہم بستری کو جرم قرار دینے کے لیے ایک مہم پر تول رہی تھی۔ نئی دہلی ہائی کورٹ میں شدت کے ساتھ اس مسئلے پر بات جاری ہے کہ میاں بیوی کے بیچ جنسی تعلقات کے لیے عورت کی رضامندی لازمی ہونا چاہیے کہ نہیں۔ دراصل تعزیرات ہند کی دفعہ 375، جو جنسی زیادتی کے لیے سزا مقرر کرتی ہے، اس کی سن 1860 کی دہائی سے نافذ استثنا 2 کا معاملہ تھا، جس کے تحت بیوی کے ساتھ زبردستی سیکس جرم نہیں ہے۔
لڑکی نے شادی کے لیے ایک بار ہاں کر دی تو زندگی بھر کے لیے ہاں کر دی۔اب اس کا شوہر جب چاہے اس پر زور زبردستی کر سکتا ہے۔آپ کو لگےگا کہ پدرسری ذہنیت کو فروغ دینے والے یہ ڈیڑھ سو سال پرانے قوانین، یہ نظریات، اس دور کی نمائندگی کرتے ہیں جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ خواتین شادی کے بعد مردوں کی ملکیت ہیں، ان کے جسم پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن شادی کو 'پوتر رشتہ‘ اور 'سات جنم کا بندھن‘ ماننے والے بھارتی معاشرے میں مرد ہو یا عورت، آج بھی زیادہ تر کی یہی رائے ہے۔
یہ ایک بے حد اشتعال انگیز موضوع بھی ہے۔ جہاں ایک طرف بیوی کے حق میں سوشل میڈیا اور اخبارات کی سرخیاں ایک بدلتے نظریے کی گواہی دے رہی تھیں وہیں، دوسری جانب، پدرسری معاشرہ ایک اور مورچہ سنبھالے ہوئے تھا۔ گو یہ حقیقت ہے کہ میریٹل ریپ خواتین کے خلاف جنسی تشدّد کی سب سے بری شکل ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ بھارت کے مباحثے کا حصہ نہیں رہا ہے۔
عدالت میں روزانہ گرما گرم دلائل دیے جا رہے تھے کہ تعزیرات ہند میں شوہروں کو جنسی زیادتی کے الزامات سے استثنا دینا خواتین کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن سامنے سے پرزور آوازیں اٹھ رہی تھیں کی اس طرح کی قانونی ترمیم سماج کے ڈھانچے کو ہلا کے رکھ دے گی۔
حالیہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق گزشتہ برس بھارت میں 31 فیصد شادی شدہ خواتین (تین میں سے تقریباً ایک) کو ان کے شریک حیات کے ہاتھوں جسمانی، جنسی اور جذباتی تشدّد کا نشانا بنایا گیا۔ ان خواتین کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ دوسری جانب ان اعداد و شمار سے حکومت اور قدامت پسند اکثریت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
2012ء میں دہلی میں ہوئے دردناک نربھیا حادثے کے تناظر میں جنسی زیادتی سے جڑے قوانین میں متعدد ترامیم کی گئیں۔ تاہم بیوی کی رضا کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ نربھیا واقعے کے بعد بھی جسٹس جے ایس ورما کمیشن نے میریٹل ریپ کو جرم قرار دینے کی سفارش کو نظر انداز کر دیا۔
حکومتیں بدلتی ہیں پر رویہ نہیں۔ پارلیمینٹ میں مختلف مباحثوں کے دوران بھارت میں اس تشدّد کو جرم تسلیم نہیں کیا گیا۔ 2016ء میں موجودہ حکومت نے پارلیمینٹ کو بتایا کہ بیوی کے ساتھ جبری ہم بستری کے تصور کو، جیسا کہ بین الاقوامی سطح پر سمجھا جاتا ہے، ناخواندگی، غربت، سماجی رسم و رواج، اقدار، مذہبی عقائد اور شادی کو مقدس سمجھے جانے کی وجہ سے بھارت میں مناسب طور پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ 2018ء میں 'خواتین کے جنسی، تولیدی اور حیض کے حقوق بل 2018‘ کے نام سے ایک بل رکن پارلیمان ششی تھرور نے لوک سبھا میں پیش کیا۔ بل میں تعزیرات ہند کی دفعہ 375 کی استثنا 2 کو حذف کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ تاہم اس بل کو حمایت حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی اور یہ قصہ وہیں ختم ہو گیا۔
مردوں کے حقوق کی تنظیمیں یہ دلیل دے رہی ہیں کہ میریٹل ریپ کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے مجوزہ قانون غیر منصفانہ ہے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران ممبئی میں 50 تنظیمیں اور 180 کارکن صنفی عدم مساوات کے قوانین پر گفتگو کرنے کے لیے اکھٹے ہوئے۔ جن مسائل پر بات ہوئی ان میں بیوی کے ساتھ زبردستی سیکس کرنے کو جرم قرار دینے کی مخالفت ایک اہم موضوع تھا۔
بھارت کے یوم جمہوریہ 2022ء کے موقع پر کی جانے والی پریڈ میں متعدد خواتین فوجی افسران پریڈ کا حصہ تھیں۔ شاید یہ صنفی مساوات کی جیت تھی۔ مگر گھر کی چار دیواری میں، بیڈروم کے اندر کی حقیقت، بہت سی خواتین کے لیے کچھ اور ہی ہے۔ ان کے لیے ایک اور محاذ پر ایک بڑی لڑائی جاری ہے، جس کا زیادہ تر کو علم تک نہیں ہے۔
ایک قوم کے طور پر ہم ایک طویل سفر طے کر چکے ہیں۔ معاشرے کو تمام خواتین کی جسمانی خود مختاری کو تسلیم کرنا ہی ہو گا، چاہے ان کی ازدواجی حیثیت کچھ بھی ہو۔ ضرورت ہے قانون میں ترمیم کی جائے اور معاشرے کے طرز فکر کو تبدیل کیا جائے۔ بہرحال معاملہ عدالت میں ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اس معاملے پر ایک پروگریسو فیصلہ آ سکتا ہے، بالکل دفعہ 377 کی طرز پر۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔