بیٹلز کی جرمنی آمد کے تاریخی واقعے کے پچاس سال
مشہورِ زمانہ برطانوی بینڈ ’بیٹلز‘ نے ٹھیک پچاس برس قبل 23 جون 1966ء کو جرمن سرزمین پر قدم رکھے تھے۔ تب چار فنکاروں پر مشتمل اس گروپ نے اپنی موسیقی سے جرمنوں کی ایک پوری نوجوان نسل کو ’بیٹل مینیا‘ میں مبتلا کر دیا تھا۔
تین روز کے لیے ہنگامی حالت
بیٹلز کے کیریئر کا آغاز 1962ء میں جرمن شہر ہیمبرگ کے سٹار کلب میں ہوا تھا۔ اس کلب میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے بہت سے فنکار اور بینڈ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔ بیٹلز بھی اس کلب میں گانے کے فوراً بعد سپر سٹار بن گئے تھے۔ پھر تووہ جہاں بھی جاتے تھے، اُن کا والہانہ استقبال ہوتا تھا۔ چار سال بعد اُنہوں نے ایک بار پھر جرمن سرزمین پر قدم رکھے اور نوجوانوں کو دیوانہ بنا کے رکھ دیا۔
پریس کا طیارے پر دھاوا
جب 23 جون 1966ء کو دوپہر بارہ بج کر چھپن منٹ پر بیٹلز کا طیارہ میونخ ریم کے ہوائی اڈے پر اترا، تو لوگوں کا ایک سیلاب طیارے کی طرف بڑھتا نظر آرہا تھا۔ پولیس کے دو سو اہلکار لوگوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پریس نے طیارے کی سیڑھیوں پر دھاوا بول دیا۔ پال میکارٹنی دوستانہ انداز میں مسکرا رہے ہیں، پیچھے پریشان مینیجر برائن ایپشٹائن کھڑا ہے۔ جان لینن بھی فکر مند نظر آ رہا ہے۔
ہوٹل کی ناکہ بندی
بیٹلز ’بائرشے ہوف‘ نامی ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ تب اس ہوٹل کے باہر اتنے زیادہ لوگ تھے کہ کہتے ہیں کہ میونخ نے نوجوان پرستاروں کا اتنا بڑا اور بے قابو ہجوم شاید ہی پہلے کبھی دیکھا ہو گا۔ باہر نوجوان لڑکے لڑکیاں کورس کی شکل میں نعرے بلند کر رہے تھے اور اندر بیٹلز کے ارکان میں کمرے تقسیم کیے جا رہے تھے۔ بعد ازاں بیٹلز کے فنکار درحقیقت کھڑکی میں آئے اور اُنہوں نے اپنے مداحوں کو دیکھ کر ہاتھ لہرائے۔
بیٹلز کے لیے تحائف کی بھرمار
بیٹلز کے چار نوجوان فنکاروں کو خوب تحائف سے نوازا گیا۔ ان تحائف میں چمڑے کی روایتی پتلونیں، بارہ سنگھے کے سینگھوں سے بنے بٹن اور کڑھائی والی مخصوص سفید شرٹیں شامل تھیں۔ چار بجے ہوٹل میں پریس کانفرنس ہوئی، جس میں رپورٹرز نے بہت سے الٹے سیدھے سوال بھی کیے۔
چار شاندار فنکار اور اُن کی خامیاں
پچاس سال پہلے جرمنی کی نوجوان نسل ایک جنون میں مبتلا ہو گئی تھی جبکہ قدرے بڑی عمر کے جرمن اس صورتِ حال پر زیادہ خوش نہیں تھے۔ پریس والے بیٹلز کو ملنے والی پذیرائی پر حیران تھے۔ ایک اخبار نے بیٹلز کے چاروں فنکاروں کا ذکر اُن کی ظاہری خامیوں کے ساتھ کیا:’’کمزور نظر والا جون لینن، سارے کام بائیں ہاتھ سے کرنے والا پال میکارٹنی، کھڑے ہوئے کانوں والا جارج ہیریسن اور بہت بڑی ناک والا رِنگو سٹار۔‘‘
فن کا پہلا مظاہرہ میونخ کے ’کرونے سرکس‘ میں
چوبیس جون کو بیٹلز نے دو کنسرٹس میں اپنے گیت پیش کیے، ایک کنسرٹ کا اہتمام سہ پہر کے وقت اور دوسرے کا شام کے وقت کیا گیا۔ دونوں جگہ بیٹلز نے آدھ آدھ گھنٹے کے لیے گیت پیش کیے اور اس دوران شائقین جنونی انداز میں چیختے رہے۔ شائقین کا شور و غُل اتنا اونچا تھا اور گٹار کی آواز اتنی بلند تھی کہ چھت نیچے گرتی محسوس ہوتی تھی۔
’اُفّ میرے خدایا، اُفّ میرے خدایا‘
تب پہلی مرتبہ جرمنی میں یہ دیکھا گیا کہ پرستاروں کا جنون ہوتا کیا ہے۔ پرستاروں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسے بیٹلز کے لیے اپنی محبت اور اپنے جوش و جذبے کا اظہار کریں۔ ایک اخبار نے شام کے کنسرٹ میں شریک ایک سولہ سالہ لڑکی کے بارے میں بتایا، جو بھاگتی ہوئی اسٹیج کی طرف بڑھی اور چیختی چلاتی نیچے گر گئی۔ وہاں موجود طبی عملہ تیزی سے آگے بڑھا اور اُسے اٹھا کر باہر لے گیا۔
چھوٹے سے شہر میں بڑا کنسرٹ
بیٹلز نے اپنے اس مختصر سے دورہٴ جرمنی کے دوران میونخ میں دو مقامات پر کنسرٹس پیش کرنے کے بعد ایک چھوٹے سے شہر ایسن کا رخ کیا، جہاں اس بینڈ نے گروگا ہال میں آٹھ ہزار پُر جوش شائقین کے سامنے اپنے ہِٹ گیت پیش کرتے ہوئے داد وصول کی۔ خیال تھا کہ یہ بینڈ برلن میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرے گا لیکن بیٹلز کسی بڑی جگہ مثلاً اولمپک اسٹیڈیم میں کنسرٹ کے لیے راضی نہ ہوئے۔
ہیمبرگ میں واپسی
جرمن بندرگاہی شہر ہیمبرگ ہی کے ایک چھوٹے سے کلب سے اپنا کیریئر شروع کرنے والے بیٹلز 1966ء کے جون میں ایک بار پھر اسی شہر میں پہنچے۔ ایرنسٹ میرک ہال میں منعقدہ دو کنسرٹس کو تقریباً چھ ہزار شائقین نے دیکھا۔ خاص طور پر لڑکیاں اس بینڈ کے گلوکاروں کی دیوانہ وار پذیرائی کر رہی تھیں۔ ہر لڑکی کی کوشش تھی کہ وہ دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ زور کے ساتھ چیخے چلائے۔
اور پھر جاپان کے لیے روانگی
بالآخر جرمنی کا دورہ اختتام پذیر ہوا اور شائقین نے ہیمبرگ کے ایئر پورٹ پر اس چار رکنی بینڈ کو الوداع کہا۔ بیٹلز اپنے دورہٴ ایشیا کے لیے ٹوکیو کی جانب پرواز کر گئے۔ جرمن پریس نے اس بات پر سُکھ کا سانس لیا کہ یہ دورہ کسی قسم کے ناخوشگوار واقعے کے بغیر اپنے اختتام کو پہنچ گیا تھا اور ہزارہا نوجوان لڑکے لڑکیوں کے دلوں کے علاوہ صرف نو عدد کرسیاں ٹوٹی تھیں۔