بے سہارا افغان بچوں کے لیے مشکلات
29 اپریل 2015اس دس سالہ بچے کو گھر میں اس کی سوتیلی ماں نہ صرف بھوکا رکھتی تھی بلکہ اسے مارتی بھی تھی۔ اس صورتحال میں اس بچے کے باپ نے اس ستم سے بچنے کے لیے اسے ایک یتیم خانے میں داخل کرا دیا لیکن وہاں اس کی عمر سے بڑے بچوں نے اس کا استحصال شروع کر دیا۔ تاہم اس یتیم خانے کی ایک استانی کو جب اس صورتحال کا اندازہ ہوا تھا تو اس نے اس بچے کی مدد کی کوشش شروع کر دی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس اس بچے کا انٹرویو کیا ہے لیکن اپنی پرائیوسی پالیسی کے تحت اس کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔ اس بچے نے بتایا کہ اس کی سگی ماں بیماری کے بعد چل بسی اور اس کے باپ نے دوسرے شادی کر لی۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی سوتیلی ماں نے اسے اور اس کی سگی بہن کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس بچے کے بقول اسے اور اس کی بہن کو مارا پیٹا جاتا تھا اور انہیں کئی کئی دنوں تک کھانا بھی نہیں دیا جاتا تھا۔
کابل میں واقع اس یتیم خانے کی ایک استانی اگر اس بچے کی مدد کے لیے افغان ممبران پارلیمان سے اپیل نہ کرتی تو جنگ سے تباہ حال اس ملک میں بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی یہ کہانی بھی شاید گمنام ہی رہ جاتی۔ اسی استانی کی کوششوں کی وجہ سے آخر کار اس بچے کو بین الاقوامی امدادی ادارے ھاجر انٹرنیشنل کے ایک شیلٹر ہاؤس میں جگہ مل گئی۔
افغانستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری شورش کی وجہ سے وہاں کی کم ازکم دو نسلوں کے لیے تشدد کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ افغان پارلیمنٹ کی توجہ حاصل کرنے والا دس سالہ بچہ انتہائی خوش قسمت رہا کیونکہ اس طرح کے بہت سے واقعات منظر عام پر ہی نہیں آتے ہیں۔ انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان اور بچوں کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس ملک میں 6.5 ملین بچے تشدد کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
’بچوں کی نفسیاتی مدد کی ضرورت بھی‘
یہ امر اہم ہے کہ افغانستان میں شورش کی وجہ سے انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اور وہاں آباد تقریبا تیس ملین کی آبادی کو نہ صرف مناسب سہولیات دستیاب نہیں ہیں بلکہ بالخصوص ظلم و ستم کے شکار بچوں اور خواتین کے لیے خصوصی شیلٹر ہاؤسز کی تعداد بھی کوئی زیادہ نہیں ہے۔ کابل میں بے سہارا بچوں کے لیے ہاجر انٹرنیشنل نے دو شیلٹر ہاؤسز بنا رکھے ہیں، جہاں بچوں کی کفالت کے علاوہ انہیں تعلیم اور ہنر مندی کے مواقع بھی دستیاب ہوتے ہیں۔
افغانستان میں ہاجر کی سربراہ سارہ شینکفیلڈ نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان شیلٹر ہاؤسز میں بچوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی تعلیم تو دی ہی جاتی ہے لیکن ساتھ میں انہیں یہ احساس بھی دلایا جاتا ہے کہ ان کی زندگیوں کی قدر ہے اور وہ اپنے ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار نبھانے کے اہل ہیں۔
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی خاتون سماجی کارکن شینکفیلڈ نے بتایا، ’’مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جو بچے آتے ہیں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ہوتا ہے اور وہ اپنی زندگی کے ابتر ترین حالات سے گزر کر یہاں پہنچتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان بچوں کو اس مخصوص کیفیت سے نکالنے کے لیے انہیں انسانی عظمت کا احساس دلانا ہوتا ہے اور انہیں نفسیاتی مدد کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ فی الحال کابل کے ان دو شیلٹر ہاؤسز میں خواتین، بچوں اور بچیوں سمیت کل چالیس افراد کا خیال رکھا جا رہا ہے۔
افغانستان کے انڈیپنڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن سے منسلک بچوں کے حقوق کے نیشنل کوآرڈینیٹر نجیب اللہ زردان کے مطابق اس ملک کے بچوں کی صورتحال اچھی نہیں ہے، ’’چھ تا 6.5 ملین بچے یا تو براہ راست خطرے میں ہیں یا وہ آہستہ آہستہ اس خطرے کا شکار بننے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ جن بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے وہ بڑے ہو کر اپنے سے چھوٹی عمر کے بچوں پر تشدد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ نجیب اللہ زردان نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں بچوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں اسمگلنگ، آبروریزی، زبردستی کی شادی، گھریلو تشدد اور جسم فروشی سرفہرست ہیں۔
بین الاقوامی امدادی ادارے ایکشن ایڈ کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ایک حکومتی اہلکار حبیب اللہ حبیب نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دارالحکومت کابل سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو وہاں بچوں کی صورتحال زیادہ ابتر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مزید امداد اور ہمت کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول 4.5 ملین آبادی والے شہر کابل میں متاثرہ بچوں کے لیے صرف بیس شیلٹر ہاؤسز ہیں، جہاں صدمے کے شکار بچوں کے علاج معالجے کی سہولیات بھی محدود ہیں۔