بے نظیر بھٹو کی پہلی برسی
27 دسمبر 2008بے نظیر بھٹو گذشتہ برس 18 اکتوبرکے روز جلا وطنی سے واپسی پر کراچی پہنچی تھیں۔ ابھی ان کا جلوس شاہراہ فیصل پر مزار قائد کی طرف رواں دواں تھا کہ کارساز کے قریب اُن کے استقبالیہ جلوس کو بم حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں بے نظیر تو محفوظ رہیں لیکن سینکڑوں افراد اس دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ اپنی زندگی کو لاحق شدید خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے، غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ جب کوئی انسان اپنے لئے اعلیٰ مقاصد کا تعین کرتا ہے تو پھراُسے اُس کی قیمت چکانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہیئے۔ لیکن 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد انہیں قتل کردیا گیا۔
بے نظیر بھٹوکو ان کی نجی زندگی میں قریبی حلقے پیار سے پنکی کہہ کر پکارتے تھے۔ ویسے تو پنکی پہلے بھی اپنے والد ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ کئی بین الاقوامی دورے کر چکی تھی۔ لیکن کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین 1972 میں شملہ سمجھوتے کے وقت بے نظیر کا وہاں موجود ہونا ایک طرف تو یہ ثابت کرتا ہے کہ اُن کے والد اُن پرکتنا بھروسہ کرتے تھے۔ دوسری طرف یہ اور نوجوانی کے ایسے ہی دیگرتجربات وہ عوامل ہیں جنہوں نے بعد کی زندگی میں بے نظیر بھٹو کی سیاسی دانشمندی اور بصیرت کا تعین کیا۔
شملہ معاہدے کے وقت بے نظیر کی عمر19 برس تھی اور وہ مقابلتہ اس کم عمری میں بھی ایک تاریخ ساز سمجھوتے کی عملی گواہ بنیں۔ شملہ معاہدے کے وقت بے نظیر کا ذاتی طور پر وہاں موجود ہونا بھی ایک وجہ تھی اس امرکی کہ بعد کی زندگی میں بے نظیربھٹو نے اپنی پارٹی کی سیاسی ترجیحات میں نوجوانوں کو ہمیشہ اونچا مقام دینے اور انہیں ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی۔
پیلپز پارٹی سے تعلق رکھنے والی صوبہ سندھ کی وزیر اطلاعات شازیہ مری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بے نظیر بھٹو کو نوجوان نسل پرمکمل بھروسہ تھا اور وہ ہمیشہ یہی کہتی تھیں کہ یہ نوجوان ہی دراصل اس ملک کا حقیقی سرمایہ ہیں۔ بےنظیر بھٹو نے دنیا کی دو مشہور یونیورسٹیوں Harvard اور Oxford میں تعلیم حاصل کی۔ اس دوران بے نظیرنے ثابت کیا کہ وہ ایک ایسی ذہین طالبہ تھیں جن کا بعد میں ایک کامیاب سیاستدان بننا طے شدہ بات تھی۔ وہ 1976 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبہ کی یونین کی صدر منتخب ہوئیں اور ایسی پہلی ایشیائی طالبہ تھیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔
سترکی دہائی میں جب پاکستان میں ابھی ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت تھی، تو بے نظیر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس وطن لوٹیں۔ اُس کے کچھ ہی عرصے بعد جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگادیا اور ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی۔ بے نظیر اور چند دیگر اہل خانہ کو پہلے نظربند اوربعد میں باقاعدہ گرفتارکر لیا گیا۔ مارشل لاء کے دوران سیاسی آزادی کی جدوجہد ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح تب ایک لڑکی نے تن تنہا ایک پورے نظام سے ٹکر لینے کی کوشش کی۔ مارشل لاء کی وجہ سے اُن کے بہت سے رفقاء ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ لیکن اس صورتحال میں بھی پیپلز پارٹی کے نوجوان کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اپنی اس نوجوان رہنما کے ساتھ رہی اوریوں اُس دور میں پاکستان کی نوجوان نسل کو ایک نیا وژن ملا۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی جوانی کے دور میں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کیا۔ گرفتاری کے دوران ان کو اپنے والد سے ملاقات کی اجازت نہ ملنا، نظر بندی، قتل کی دھمکیاں اورقید وبند کی صعوبیتیں۔ جن حالات کا بے نظیر کو سامنا رہا اس کی وجہ سے ان کے مخالفین کو بھی ان کی بہادری کا قائل ہونا پڑا۔ اس دور میں پیپلز پارٹی کے نوجوان کارکنوں کی سیاسی تربیت کے ساتھ ساتھ بے نظیر نے اُن کی سماجی تربیت بھی جاری رکھی۔ شازیہ مری کے بقول اسلام آباد میں موجودہ وفاقی حکومت کا بے نظیر ہی سے منسوب، نوجوانوں کے لئے ترقیاتی پروگرام اسی تربیتی سوچ کا تسلسل ہے۔ صوبائی وزیر شازیہ مری کہتی ہیں کہ بے نظیربھٹو کی ہمیشہ یہ کوشش تھی کہ پاکستان میں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے کافی لیکن یکساں مواقع حاصل ہونے چاہیئں۔ ان کی ترقی کرنے میں کوئی بھی رکاوٹ نہ ہو۔