بے گھر قبائلی شہریوں کی مدد کون کرے ؟
20 جون 2014شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی نیم قبائلی علاقے ایف آر بنوں میں رجسٹریشن کی جارہی ہے۔ کمشنر بنوں کے مطابق جمعے کی صبح تک نقل مکانی کرنیوالوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی تاہم غیر سرکاری امدادی تنظیموں کے مطابق بےگھر ہونیوالوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے۔ زیادہ تر بےگھر افراد خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں پناہ لے رہے ہیں لیکن ان کے لئے حکومتی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
’قبائلی عوام کی بدقسمتی‘
خیبر پختونخوا حکومت نے بے گھر افراد کو سہولیات کی فراہمی کے لئے 35 کروڑ، وفاقی حکومت نے50 جبکہ قدرتی آفات سے نمٹنے والے قومی ادارے نے دس کروڑ روپے فراہم کئے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی امدادی اداروں کی جانب سے تاحال کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کروائی گئی۔ قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ارشد خان کا کہنا ہے، ’’اس وقت بین الاقوامی امداد دینے والے اداروں کی تمام تر توجہ شام اور فلپائن پر ہے۔ عالمی ادارہء خوارک شام میں ہفتے میں چالیس ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ ایسے میں ہمیں سخت مقابلے کا سامنا ہے اور فی الحال ہمیں وہاں سے کوئی بڑی مدد نہیں مل رہی میں ان حالات کو قبائلی عوام کی بدقسمتی سمجھتا ہوں۔“
بے سرو سامانی میں گھروں سے نکلنے والے شمالی وزیر ستان کے شہری کرائے کے گھروں یا رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرے ہیں۔ شدید گرمی اور سہولیات کی فقدان کی وجہ سے کوئی حکومتی کیمپوں میں رہنے کے لئے تیار نہیں۔ صوبائی حکومت نے بے گھر افراد کو سرکاری سکولوں اور دیگر عمارتوں میں بسانے کی ہدایت کی ہیں۔ ان سکولوں میں بھی متعدد خاندان ٹھہرے ہیں اور وہاں بھی پانی اور بجلی کی سہولیات موجود نہیں۔
جمعے کے روز وزیر اعظم میاں نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دیگر اعلیٰ حکام کو کور کمانڈر پشاور لفٹینینٹ جنرل خالد ربانی نے آپریشن ”ضرب عضب“ کے حوالے سے بریفنگ دی ہے۔ انہیں آپریشن میں پیش رفت،نقل مکانی کرنیوالوں کے لئے اقدامات اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بتایا گیا۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ میران شاہ اور میر علی کا مکمل محاصرہ کرلیا گیا جبکہ آپریشن کے دوران 200 سے زیادہ جنگجوؤں کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ ان کے 24 اہم ٹھکانوں اور بارود بنانے والی فیکٹری کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان میں بڑی تعداد میں اُزبک دہشت گرد موجود ہیں۔
’مطلوب عسکریت پسند بچ نکلیں گے‘
عسکریت پسندوں کے خلاف قبائلی علاقوں سمیت خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن میں2001ء سے لے کر اب تک ہونیوالا یہ نواں آپریشن ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ آپریشن ”ضرب عضب “کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ایک ایجنسی میں آپریشن ہوتا ہے تو دہشت گرد کسی دوسرے علاقے میں چھپ جاتے ہیں اور آپریشن ختم ہوتے ہی کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔
قبائلی اُمور کے ماہر اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کا اس بارے میں کہنا ہے، ”جو لوگ حکومت کو مطلوب ہوں گے، وہ پاک افغان سرحد یا پھر افغانستان میں چھپ جائیں گے۔ لہٰذا یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس آپریشن کے جو مقاصد ہیں وہ حکومت حاصل کرسکے گی کہ نہیں، کیونکہ ماضی میں حکومت نے سوات میں بہت بڑا آپریشن شروع کیا تھا، جس کے نتیجے میں تیس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے نقل مکانی کی لیکن مولانا فضل اللہ کُنڑ (افغانستان)میں جاکر بیٹھ گیا۔‘‘