تارکین وطن کی زندگیاں بچانے میں اٹلی کا نیا ریکارڈ
4 مارچ 2017جمعے کے روز بحیرہ روم کے کھلے پانیوں سے جن نو سو سے زائد پناہ کے متلاشی افراد کو بچایا گیا، ان میں کل پانچ بچے ہیں، جن میں آٹھ ماہ کے دو جڑواں شامی بچے بھی شامل ہیں۔
شناخت چھپانے کی صورت میں مہاجرین کا موبائل بھی ضبط
جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر
تازہ ترین امدادی کارروائی اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ خراب موسم اور خطرناک سمندری راستوں کے باوجود لیبیا کے مغربی ساحلوں سے اٹلی کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں کا کہنا ہے کہ لیبیا کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور یہ اندیشہ کہ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ پہنچنے کے راستے بھی جلد بھی بند کر دیے جائیں گے دو ایسی بڑی وجوہات ہیں جن کی بنا پر اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن جلد از جلد اٹلی پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سال اب تک اٹلی کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد 2016ء کے مقابلے میں ستاون فیصد جب کہ اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں اکیاسی فیصد زیادہ ہے۔
جمعے کے روز بحیرہ روم میں دس امدادی کارروائیاں کی گئیں جن میں ربڑ کی چار بڑی کشتیاں اور لکڑی کی بنی ہوئی چھ نسبتاﹰ چھوٹی کشتیوں میں سوار سینکڑوں تارکین وطن کو سمندر سے بحفاظت نکال لیا گیا۔
ان امدادی کارروائیوں میں اطالوی ساحلی محافظوں کے علاوہ یورپی سرحدوں کے نگران ادارے فرنٹیکس، ناروے کے بحری مشن اور ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی فرانسیسی این جی او کی ٹیمیں شریک تھیں۔
ٹام کنگٹن ایک برطانوی صحافی ہیں جو امدادی کارروائیوں میں شامل ایک بحری جہاز پر موجود تھے۔ کنگٹن نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس دوران کئی بھیانک مناظر بھی دیکھنے کو ملے لیکن اس خطرناک صورت حال میں بھی تارکین وطن کی حسِ مزاح قائم تھی۔ ایک شامی مہاجر کی زندگی بچا کر جب اسے بحری جہاز منتقل کیا گیا تو اس نے سگریٹ پینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اجازت نہ ملنے پر اس نے کہا، ’’سگریٹ پینے دو یا پھر مجھے واپس لیبیا بھیج دو۔‘‘
حلب سے تعلق رکھنے والے ایک پینتیس سالہ شامی مہاجر کا کہنا تھا کہ لیبیا میں زندگی گزارنا ناممکن ہے ’’نہ وہاں کوئی حکومت ہے، نہ پیسے، ہر طرف جنگ۔ میرے خیال میں اب وہاں کوئی شامی مہاجر نہیں رہے گا، سبھی یورپ کا رخ کریں گے۔‘‘
اس شامی شہری نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ گزشتہ تین برس سے لیبیا میں رہ رہا تھا۔ اسے امید تھی کہ وہ لیبیا سے واپس شام چلا جائے گا لیکن ان دونوں ممالک کی صورت حال کو پیش نظر رکھ کر اس نے اپنی زندگی داؤ پر لگا کر یورپ کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں