تارکینِ وطن کی آمد سے جرائم میں کمی، جرمنی میں نئی تحقیق
8 جولائی 2016جرمنی میں گزشتہ برس ’خیر مقدم کہنے کی ثقافت‘ کا بڑا چرچا رہا۔ یہ اصطلاح بڑی تعداد میں جرمنی کا رُخ کرنے والے مہاجرین کو دل سے خوش آمدید کہنے کے حوالے سے استعمال کی گئی۔ سالِ نو کے جشن کے موقع پر کولون شہر میں خصوصاً شمالی افریقہ سے آنے والے مہاجرین نے خواتین پر جس طرح سے جنسی حملے کیے اور اُنہیں ہراساں کیا، اُس سے اس تحریک کو زبردست دھچکا پہنچا۔
تبھی سے ایسے سوالات پر بحث مباحثہ ہونے لگا تھا کہ آیا واقعی اسلامی ملکوں سے آنے والے جرمن معاشرے کا حصہ بن سکتے ہیں اور آیا تارکینِ وطن کی آمد سے جرائم واقعی بڑھ جاتے ہیں۔
برلن کی ’میڈیا سروس انٹیگریشن‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک نئے تحقیقی جائزے میں جرائم اور جرم کرنے والے کے جرمن یا غیر ملکی ہونے کے درمیان تعلق کی تردید کی گئی ہے۔ اس میں جرائم پر تحقیق کے جرمن ماہر کرسٹیان وال بُرگ نے بالخصوص جرائم سے متعلقہ وفاقی جرمن محکمے BKA کے اعداد و شمار کو تارکینِ وطن کی آمد کے تناظر میں جانچا ہے۔
وال بُرگ نے اس ڈیٹا کی روشنی میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روایتی جرائم میں کسی طرح کا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ گھروں میں چوری کے ساتھ ساتھ جیب کاٹنے کے بھی واقعات میں البتہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے تاہم پولیس کے مطابق اس طرح کے جرائم میں زیادہ تر مشرقی یورپ سے آئے ہوئے افراد یا پھر مشرقی افریقی ملکوں کے شہریوں کا ہاتھ ہوتا ہے جبکہ پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رُخ کرنے والے ان دونوں خطّوں سے تعلق نہیں رکھتے۔
جرائم پر تحقیق کی ایک اور ماہر ساندرا بوسیریئس گزشتہ کئی برسوں سے تارکینِ وطن کے پسندیدہ ملک کینیڈا میں آباد ہیں۔ اُنہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے مطالعاتی جائزوں سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ تارکینِ وطن کی آمد سے کسی ملک میں جرائم کی شرح عموماً گھٹتی ہے نہ کہ بڑھتی ہے۔‘‘ ماہرین کے مطابق جن مہاجرین کو جرمن زبان کے کورسز تک رسائی مل جاتی ہے اور روزگار بھی مل جاتا ہے، اُن کے جرائم کی طرف راغب ہو جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
BKA کی ایک دستاویز کے مطابق مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کی آمد کے باوجود جنوری تا مارچ 2016ء مہاجرین کی جانب سے کیے جانے والے جرائم میں اٹھارہ فیصد کمی ہوئی، اُلٹا مہاجرین کے خلاف ہونے والے جرائم میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔