تامل ٹائیگرز جنگ بندی پر ’تیار‘
23 فروری 2009اگرچہ تامل ٹائیگرز نے اس وقت تک ہتھیار نہ پھینکنے کا عندیہ دیا جب تک کہ بحر ہند میں واقع جزیرے سری لنکا کی حکومت تامل نسل کی بقا کی ضمانت نہیں دے دیتی۔
اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے نام ایک خط میں تامل ٹائیگرز نے کہا ہے کہ سری لنکا کی فوج بھاری توپ خانے سمیت تباہ کن ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہیں جس سے تامل علاقے میں روزانہ 50 سے 100 کے درمیان عام شہری مارے جا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین، ناروے اور جاپان کو لکھے گئے اس خط میں تامل ٹائیگرز کے سیاسی امور کے سربراہ Balasingham Nadesan نے دعویٰ کیا کہ اب تک 2000 تامل شہری اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور 5000 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ خط میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ’خاموشی‘ کو تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر تامل شہریوں کی بقا کی کوشش کی جانی چاہئے۔
Balasingham Nadesan کے مطابق ’’ ان حالات میں LTTE جنگ بندی پر رضامند ہے۔ جس کا مقصد اچھی نیت کے ساتھ انسانی المیے کا خاتمہ ہے۔ LTTE کی جنگ بندی کی اس کوشش کو اگے بڑھایا جانا چاہئے تاکہ کہ مذاکرات کے ذریعے نسلی مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔‘‘
امریکہ، یورپی یونین، جاپان اور ناروے نے تامل ٹائیگرز سے اپیل کی تھی کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور حکومتی پیشکش کا مثبت جواب دے۔ سری لنکا کی حکومت تامل ٹائیگرز سے قومی دھارے میں شامل ہو کر سیاسی طریقے سے مسائل کے حل پر زور دیتی رہی ہے۔
سری لنکا کی حکومت نے تامل باغیوں کے اس دعوے کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فوج تامل شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہی ہے بلکہ اس کا الزام تھا کہ باغی ہی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
ای میل کی صورت میں بین الاقوامی خبر رساں اداروں تک پہنچنے والے اس خط کے کچھ ہی دیر بعد تامل باغیوں کے دو ہوائی جہازوں کو داراحکومت کولمبو پر حملےکے دوران حکومتی فوج نے مار گرایا۔ تامل باغیوں کے اس فضائی حملے میں دو افراد ہلاک اور 53 زخمی بھی ہوئے۔
سری لنکا کی حکومت کے مطابق تامل باغیوں میں تاحال اتنی سکت موجود ہے کہ وہ شمال میں واقع جنگی علاقے سے اتنے فاصلے پر حملہ کر سکتے ہیں۔ حکومتی فورسز اور تامل باغیوں کے درمیان سری لنکا کے شمال میں تقریبا 73 مربع کلو میٹر پر جنگ جاری ہے جس کے بارے مین حکومتی دعویٰ ہے کہ یہ جلد اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے۔
اس جنگ کا آغاز 1983 میں ہوا تھا جب کہ گزشتہ برس سے تامل باغیوں کے خلاف آپریشن میں انتہائی تیزی دیکھنے میں آئی اور حکومتی فورسزنے پے درپے کامیابیوں کے ذریعے تامل باغیوں کے زیر قبضہ بیشتر علاقے اپنے قبضے میں لے لئے ہیں۔