تاپی منصوبہ: طالبان کی ترکمانستان کو سکیورٹی کی یقین دہانی
2 نومبر 2021تاپی منصوبے کی تکمیل کے بعد اقتصادی ترقی کے نئے دروازے کھلنے کی امیدیں ہیں۔ موجودہ دور کے شاہراہ ریشم قرار دیے جانے والے تاپی پروجیکٹ کو ابتدا سے ہی سیاسی، جغرافیائی اور سلامتی کے حوالے سے خطرات جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم ترکمانستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تاپی منصوبے کی تکمیل کے عزم پر قائم ہے۔
ترکمانستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ اواخر ہفتہ کو ترکمانستان حکومت کے ایک وفد نے افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ وفد نے دیگر امور کے ساتھ ساتھ تاپی منصوبے کے مستقبل پر بھی بات چیت کی تھی۔ بات چیت کے دوران افغان حکومت نے باہمی پروجیکٹوں پر کام دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
ترکمانستان کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں افغانستان کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی کے حوالے سے کہا،”ہم جس قدر جلد ممکن ہو دونوں ملکوں کے درمیان قومی منصوبوں کو شروع کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان منصوبوں کے لیے سیکورٹی سمیت تمام ضروری شرائط پوری کردی گئی ہیں۔"
ترکمانستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں افغانستان کے وزیر دفاع ملا محمد یعقوب کے حوالے سے بھی کہا گیا ہے،”ہم دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی پروجیکٹوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔"
ترکمانستان تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے اپنے تین حصے پہلے ہی مکمل کر چکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت سالانہ 33 ارب مکعب میٹر گیس فراہم کی جائے گی جبکہ سابق سوویت یونین کی اس ریاست کا چینی مارکیٹ پر انحصار کم ہو جائے گا جہاں اس وقت اس کی زیادہ تر برآمدات جا رہی ہیں۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ گیس پائپ لائن منصوبے کا باقی حصہ کب مکمل کیا جائے گا۔
شروع سے ہی مسائل سے دوچار
چار ملکی گیس پائپ لائن منصوبہ تاپی کا سنگ بنیاد 13دسمبر 2015 کو ترکمانستان میں صحرائے قراقرم کے میری نامی شہرمیں رکھا گیا تھا۔ اس تقریب میں ترکمانستان کے صدر کے علاوہ اس وقت کے افغان صدر اشرف غنی، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور بھارت کے نائب صدر محمد حامی انصاری بھی شریک ہوئے تھے۔
دس ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی 1700 کلومیٹر طویل اس پائپ لائن کو دو برس میں مکمل ہونا تھا لیکن سیاسی، جغرافیائی اور سیکورٹی کے مسائل منصوبے میں آڑے آتے رہے اور تکمیل میں تاخیر ہوتی گئی۔ افغانستانی حصے پر کام کا آغاز فروری 2018 ہوا جب کہ پاکستان میں دسمبر 2018 میں کام شروع ہونا تھا تاہم مختلف اسباب کی بنا پر اس پروجیکٹ پر کام کو ملتوی کردینا پڑا۔ اس پروجیکٹ کو امریکی دباو کا بھی سامنا رہا ہے۔
منصوبے کے مطابق یہ پائپ لائن ابتدا میں 27 ارب مکعب میٹر سالانہ گیس فراہم کرے گی۔ اس میں سے دو ارب افغانستان اور ساڑھے 12 ارب مکعب میٹر گیس پاکستان اور بھارت حاصل کریں گے۔
تاپی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھتے ہو ئے ترکمانستان کے صدر بیرڈی مخامیدوف نے کہا تھا ”تاپی کو ایک ایسے مؤثر اقدام کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، جس کی مدد سے عالمی سطح پر توانائی کی محفوظ فراہمی کا ایک جدید ڈھانچہ تعمیر کیا جا سکے گا، یہ پائپ لائن ایشیائی خطّے میں اقتصادی اور سماجی استحکام کے لیے ایک طاقتور محرک کا کام دے گی۔"
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)