تجدید وفا کی کوششیں:حامد کرزئی واشنگٹن میں
10 مئی 2010امریکی حکام کے ایک اہلکار نے افغان صدر حامد کرزئی کے 4 روزہ امریکی دورے کے آغاز پر ایک بیان میں کہا کہ امریکہ افغان صدر کے ساتھ ’ نشیب و فراز سے عبارت‘ اپنے تعلقات بحال رکھنا اور طالبان کے خلاف جاری جنگ پر پھر سے توجہ دینا چاہتا ہے۔ کچھ عرصے سے امریکہ اور افغانستان کے مابین غیر معمولی کشیدگی دیکھنے میں آتی رہی ہے۔ دونوں صدور کی ملاقات کو کابل اور واشنگٹن دونوں طرف ایک اچھا موقع سمجھا جا رہا ہے، دوطرفہ تعلقات کی بحالی کی کوششوں کا۔ امید کی جا رہی ہے کہ حامد کرزئی کے ساتھ ملاقات میں باراک اوباما ذاتی طور پر افغانستان سے کرپشن کے خاتمے کے لئے مؤثر اقدامات پر زور دیں گے۔
افغان صدر کے اس بار کے دَورہء امریکہ کے دوران باراک اوباما کے ساتھ ان کی وہ تمام میٹینگز متوقع ہیں، جو کوئی بھی امریکی سربراہ مملکت اپنے کسی ہم منصب کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ ان میں وائٹ ہاؤس کی مشترکہ پریس کانفرنس سمیت وائٹ ہاؤس میں منگل کے روز دونوں صدور کی لنچ میٹنگ اور ’اوول آفس‘ میں ہونے والے مذاکرات شامل ہیں۔ حامد کرزئی ایک ایسے وقت امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں، جسے باراک اوباما کی افغانستان سے متعلق حکمت عملی کے حوالے سے بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔آج کل امریکی صدر افغانستان میں طالبان کو مکمل شکست دینے کے لئے اپنے مزید 30 ہزار فوجیوں کو ہندو کُش بھیجنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اوباما کا خیال ہے کہ اس بڑے آپریشن کے بعد کسی حد تک ان کا مشن مکمل ہو جائے گا اور آئندہ سال سے اُن کے فوجیوں کی وطن واپسی بھی شروع ہو سکے گی۔
صدر باراک اوباما اور افغان صدر حامد کرزائی کی آج کی ملاقات کرزئی کی طرف سے وائٹ ہاؤس کے اندر غصے اور تشویش کا باعث بننے والے اُن بیانات کے بعد پہلی بار ہوگی، جس میں کرزئی نے 2009 ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاند لیوں کا ذمہ دار غیر ملکوں کو ٹھہرایا تھا۔ تب سے یہ امر واضح ہے کہ حامد کرزئی پر سے اوباما انتظامیہ کا اعتماد اُٹھ گیا ہے اور چند چوٹی کے اہلکاروں کا ماننا ہے کہ کرزئی ملک سے کرپشن کے خاتمے، ایک مستحکم معاشرے کے قیام اور اپنے عوام کو ایک ’ گُڈ گورننسس‘ فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
میڈیا میں چھپنے والے ایک تبصرے میں، جس کے بارے میں بعد میں واشنگٹن نے کہا کہ اِسے سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا ہے، کرزئی نے دھمکی دی تھی کہ وہ طالبان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ افغان صدر کا یہ بیان ابھی مارچ کے اواخر میں باراک اوباما کے امریکی صدر کی حیثیت سے افغانستان کے دورے کے بعد سامنے آیا تھا۔ حامد کرزئی کے لہجے میں تلخی دراصل اُس بیان کے نتیجے میں آئی، جو باراک اوباما کی انتظامیہ کے قومی سلامتی امور کے ایک مُشیر ’جیمز جونز‘ نے کابل کے ایک دورے کے دوران دیا تھا۔ کئی روز بعد کرزئی نے ایک اخبار میں چھپنے والا ایک بیان پڑھا، جس میں ایک نا معلوم امریکی اہلکار نے حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی ’احمد ولی کرزئی‘ کے نام کو امریکی فوج کی ’کِل اور کیپچر‘ یعنی ’مار دو یا پکڑ لو‘ کی فہرست میں شامل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
دریں اثناء میڈیا کی خبروں کے مطابق امریکی حکام حامد کر زئی اور اُن کی حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوششیں کر رہے ہیں اور ان کا یہ ماننا ہے کہ دو طرفہ تعلقات میں پڑنے والی دراڑیں کسی حد تک پُر ہو گئی ہیں۔ افغان صدر کے امریکی دورے کو واشنگٹن انتظامیہ صدر کرزئی کے ساتھ تناؤ کے شکار تعلقات سے زیادہ امریکہ کی افغانستان کے ساتھ وابستگی اور ہندو کُش میں امریکہ کی سرگرمیوں کی اہمیت کے ضمن میں دیکھ رہی ہے۔
رپورٹ کشور مصطفیٰ
ادارت امجد علی