1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحریک انصاف کا جن اور جہانگیر ترین کی بوتل 

26 مئی 2021

عمران خان کچھ عرصہ قبل تک صحافیوں سے شکوہ کرتے تھے۔ ہر ٹی وی پروگرام میں ایک ن لیگ کا سیاستدان، دوسرا پیپلز پارٹی کا اور بقول ان کے بیچ میں ’بیچارا‘ ہمارا تحریک انصاف کا صرف ایک ’بندہ‘ دفاع کرتا رہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3txvu
Pakistan | DW Urdu Blogger | Owais Tohid
تصویر: privat

دو بمقابلہ ایک، گویا سراسر ناانصافی، خصوصا جب ٹی وی سکرینز پر ہی سیاسی اور غیر سیاسی لڑائیاں لڑی جا رہی ہوں۔ تاہم ان دنوں ہر شام ٹی وی اسکرینز پر معاملہ الٹا نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی یا ن لیگ سے ایک سیاسی رہنما جبکہ تحریک انصاف کے دو سیاسی رہنما ٹی وی پروگرام میں شامل ہوتے ہیں۔ ایک کے نام کی تختی رہنما تحریک انصاف اور دوسرے کی شناخت رہنما جہانگیر ترین گروپ سے ہوتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک عمران خان صاحب کی حکومت کا دنگل اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے ساتھ تھا۔ لندن میں بیٹھے نواز شریف اور ملک میں موجود زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے سیاسی داو پیچ لڑنے کے لیے اپنی اولادوں یعنی مریم اور بلاول کو میدان میں اتارا ہوا تھا۔ ایک کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کے ذریعے اور دوسرے کا اس دھار پر اپنی میٹھی چھری تیز کر کے مستقبل سنوارنا مقصود تھا۔ 

مولانا عمران خان کیساتھ ذاتی لڑائی میں بہت آگے جا کر حکومت کا تختہ الٹنا چاہ رہے تھے، ن لیگ اور زرداری کی چالوں سے بالآخر بدظن ہوئے اور خاموشی کی راہ اپنائی۔ معاملہ الجھ سا گیا، زرداری اور ن لیگ کے راستوں میں سمجھوتوں اور مصلحتوں کی بڑی دیوار سی حائل ہوگئی۔ خان صاحب کے ساتھی ابھی کامیابیوں کے شادیانے بجانے میں مصروف تھے اور سمجھ رہے تھے کہ اپوزیشن ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات میں دراڑ ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔ اگلے دو سال کی بقیہ مدت حکومت کو بلا رکاوٹ سفر طے کرنے کا سرٹیفیکیٹ حاصل ہو چلا ہے لیکن یکدم اپنے ہی گھر میں معاملات بگڑ گئے۔

صبح کا سورج طلوع نہ ہوا تھا کہ رات کا نشہ ہرن ہوا۔ خان صاحب کے دست راست جہانگیر ترین نے دھماکا کیا۔ دائیں بائیں تحریک انصاف کے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اراکین، کسی کا دعوی تیس کا اور کسی کا چالیس، مگر تعداد اتنی ضرور کہ تحریک انصاف کی وفاقی اور پنجاب حکومت کی کمزور سانسوں کو بے ربط کر دے۔ 

جہانگیر ترین ’ہم خیال گروپ‘ کا ٹائٹل۔ ترین کے 'وفاداروں اور جانثاروں‘ کا قافلہ ایک قدم تحریک انصاف کے گھر کی چوکھٹ کے باہر اور دوسرا گھر کے اندر۔ جہانگیر ترین شوگر اسکینڈل کے جال میں گزشتہ برس ایسے گھرے کہ خان صاحب سے ماضی کی قربتیں نا ختم ہونے والے فاصلوں میں تبدیل ہو گئیں۔ اب ان کے یہ وفادار ترین کی ’حق و باطل‘ کی لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔ لوگ ترین کو شوگر اسکینڈل میں پھنسانے کی ذمہ داری عمران خان کے اعتماد والے بیوروکریٹ اعظم خان اور شہزاد اکبر صاحب پر ڈالتے ہیں۔ 

معاملہ الجھتا ہی چلا گیا۔ سوشل میڈیا کے صارفین کی نگاہیں مسئلہ فلسطین پر مرکوز تھیں کہ عمران خان کے ساتھیوں نے "I stand with Imran Khan “ کے ہیش ٹیگ سے ٹویٹ کرنا شروع کر دیں۔ چاہے اسد عمر ہوں یا ملیکا بخاری یا شفقت محمود۔ گمان ایسا جیسے کوئی بغاوت ہوگئی ہو۔

عمران خان کو ترین گروپ کے اراکین کیساتھ ملاقات کرنا پڑی۔ بیرسٹر ظفر کو اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے اور جھگڑے کے تصفیہ کے لیے ’جج‘ مقرر کیا گیا۔ پنجاب اسمبلی سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے اراکین، جو اب خان صاحب کیساتھ ساتھ ترین کی وفاداری کا بھی دم بھرتے ہیں، ان کے گلے شکوؤں کو دور کرنے کے لیے، بزدار ملاقاتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ ان کے ’جائز‘ کام کرنے کے لیے تین مرتبہ سر ہلا کر 'سب قبول ہے‘ کہہ رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی وفاقی اور پنجاب حکومت کے لیے ترین کے ان ’وفاداروں‘ کی علیحدگی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ کیونکہ بجٹ کا سیشن آنے والا ہے۔ تب ہی تو ناز نخرے برداشت کیے جا رہے ہیں۔ اگر بجٹ نامنظور تو حکومت کو فارغ سمجھیں۔ شاید اس صورتحال کا سامنا تو نہ کرنا پڑے لیکن حکومت کے دامن پر ماتھے سے بہتے ہوئے پسینے کے داغ تو دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس وجہ سے عمران خان کا بڑا امتحان کہ بجٹ منظور کروا لیا جائے۔ 

اتحادی چاہے چوہدری برادران ہوں یا ایم کیو ایم۔ حمایت کس کے بل بوتے پر قائم دائم ہے، اس کے لیے کوئی کسوٹی کھیلنے کی ضرورت نہیں۔ ترین کے ساتھ بھکر کے معروف ’نوانی‘ سیاسی خاندان ہو یا جنوبی پنجاب کے لنگڑیال، کون کس کے پیچھے اور آگے کا کیا بنے گا؟

کیا حکومت نے شہباز شریف کی لندن جانے پر پابندی لگانے سے ناراضی تو مول نہیں لے لی! شہباز کس کی آشیرواد سے بھائی کے لیے پیغام تو لیکر نہیں جارہے تھے۔ مریم اور نواز کی قدرے خاموشی کا مطلب کہیں 'شہباز-اسٹیبلشمنٹ ہم آہنگی‘ تو نہیں؟ سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں۔

شہباز شریف ہمیشہ اپنے آپ کو ایک دوراہے پر کھڑا پاتے ہیں۔ بڑے بھائی سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود نہ بغاوت کر سکتے ہیں اور نہ مریم کو غیر اعلانیہ طور پر سیاسی جانشین مقرر کرنے پر انحراف۔ اور نہ ن لیگ کی باگ دوڑ آزادانہ طور پر سنبھال سکتے ہیں کیونکہ ن لیگ کے ووٹرز نواز شریف یا مریم کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ 

فی الوقت شہباز ن لیگ میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ، جس پر پارٹی میں اختلافات موجود ہیں، اس کی شدت کم کر کے مفاہمتی راہیں ہموار کرنا چاہیں گے۔ 

پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی اور زرداری کیساتھ مل کر پارلیمانی احتجاج سے حکومت کے گرد گھیرا تنگ کر یں گے نا کہ لانگ مارچ یا استعفوں کی سیاست پر زور ہو گا۔ نواز شریف اور زرداری سمجھتے ہیں کہ مسائل میں گھری حکومت اپنی مدت پوری کرے گی تو ’پرفارمنس کی بنیاد‘ پر آئندہ انتخابات میں اقتدار کے حصول کے چانسز کم ہو جائیں گے۔

شہباز اور زرداری ذمہ دار حلقوں تک رسائی کے راستوں کو اگلے انتخابات تک کسی رکاوٹ کے بغیر طے کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ایک بحران کا خطرہ موجود ہے لیکن ملک کی موجودہ صورتحال کے پس منظر میں بڑی سیاسی تبدیلی مشکل نظر آتی ہے۔ شہباز شریف کے ساتھی چوہدری نثار پارلیمانی سیاست میں واپسی کے لیے تیار ہیں۔

چوہدری نثار نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ مخالف پالیسیوں سے نالاں تھے لیکن شہباز شریف کیساتھ گہرا تعلق قائم ہے اور شاید اسی وجہ سے پنجاب کے سیاسی حلقوں میں تبدیلیوں کی افواہیں گرم ہیں۔ لیکن ان کی واپسی بھی مستقبل اور آئندہ انتخابات کی سیاست کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ سیاسی منظر نامہ پر نئی صف بندیوں کی تیاریاں پس منظر میں جاری ہیں۔ اقتدار کی راہداریوں کے پیچ و خم پرکھنے والے سمجھتے ہیں کہ ''ذمہ دار حلقوں کی سوچوں کی گھڑی کی سویاں کل کی تاریخ پر بندھی ہیں اور خان صاحب اور ان کی حکومت کی سوچ آج کی الجھنوں پر مرکوز ہے۔‘‘ 

حکمرانی کی مدت میں ہر آنے والے دن کیساتھ وقت کی کمی کا شدت سے احساس ہونا، ضمنی انتخابات میں پہ در پہ شکست، شریف خاندان کا پنجاب میں ووٹ بنک کا قائم رہنا، زرداری اور نواز شریف کا جیل سے باہر ہونا اور اب ماضی کے ساتھی جہانگیر ترین کا انحراف۔ بجٹ منظور بھی ہو جاتا ہے تو کیا سیاسی مصیبتوں سے خان صاحب اپنے آپ کو آزاد کرا پائیں گے، مشکل لگتا ہے۔

 اپنے ساتھی صحافی مظہر عباس اور آرٹس کو نسل کے سربراہ اور دوست احمد شاہ کیساتھ کراچی میں برنس روڈ جانا ہوا۔ اب وہاں سڑک کنارے ہوٹلوں میں جنرل ضیاء دور کی طرح ’یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘ بھی نہیں لکھا ہوتا۔ 

حلیم اور سامنے ہی بادام پستے والی دودھ کی بوتلیں فروخت کرتا ہوا پرانی واقفیت والا ’پہلوان جی‘، ہمیں دیکھتے ہی سیاست پر جملے کسنا شروع کر دیے۔ 

ہم نے بھی پوچھ لیا کہ جہانگیر ترین کا کیا ہوگا؟ پہلوان جی نے بوتلوں کے ڈھکن کھولتے ہوا کہا، ’’تحریک انصاف کا جن ترین کی بوتل میں ہے بس ڈھکن بند کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ لیکن واپسی لوٹتے ہوئے سوچوں نے گھیرا ڈالا۔ کانچ کی بوتلوں کا ڈھکن کھولنا اور بند کرنا مہارت کا کام ہے۔ اگر احتیاط نہیں برتی تو ترین صاحب کے ہاتھ زخمی بھی ہو سکتے ہیں اور ہاتھ خالی بھی رہ سکتے ہیں۔