1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحفظ حقوق کے قوانین اور خواتین کی خرید و فروخت

Afsar Awan31 جولائی 2012

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور تشدد وغیرہ سے ان بچاؤ کے حوالے سے گزشتہ برس کے اواخر میں دو قوانین منظور کیے گئے تھے مگر ان قوانین کے باجود بھی خواتین کے خلاف جرائم میں بظاہر کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

https://p.dw.com/p/15hJY
تصویر: DW

ان قوانین کے مطابق عورت کو وراثت کے حق سے محروم کرنے والوں، کم عمری، جبری یا قرآن سے شادی کروانے والوں اور تیزاب سے جلائے جانے کے واقعات میں ملوث پائے جانے والوں کو زیادہ سے زیادہ سزائیں سنائی جا سکیں گی۔ ان قوانین کے مطابق ایسے تمام جرائم کو ناقابل ضمانت بھی قرار دے دیا گیا۔

سکھر کے اے جی آئی جی کرائم شوکت عباسی کا کہنا ہے کہ سندھ کے چاروں اضلاع میں سب سے زیادہ کیسیز خواتین کے اغوا اور زیادتی کے درج ہو رہے ہیں
سکھر کے اے جی آئی جی کرائم شوکت عباسی کا کہنا ہے کہ سندھ کے چاروں اضلاع میں سب سے زیادہ کیسیز خواتین کے اغوا اور زیادتی کے درج ہو رہے ہیںتصویر: DW

مگر خواتین کے خلاف جرائم میں بظاہر کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ خواتین کے حقوق اور ان تحفظ کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے مطابق ملک بھر میں2010 میں خواتین کے اغوا کے 2236 واقعات رونما ہوئے جبکہ2011 میں ایسے 2089 کیسز سامنے آئے۔

آبادی کے لحاظ سے صوبہ سندھ کے تیسرے سب سے بڑے شہر سکھر کے اے جی آئی جی کرائم شوکت عباسی کا کہنا ہے کہ سندھ کے چاروں اضلاع میں سب سے زیادہ کیسیز خواتین کے اغوا اور زیادتی کے درج ہو رہے ہیں۔

عباسی کے مطابق ان میں سے چند واقعات میں تو خواتین اپنی مرضی کے مطابق نئی زندگی کے آغاز کے لیے گھر چھوڑ جاتی ہیں جس کے بعد ان کے والدین یا رشتہ دار لڑکے کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کروا دیتے ہیں۔ شوکت عباسی کے بعض کیسز میں ان خواتین کی خرید و فروخت کے لیے انہیں ملک کے دیگر شہروں میں اسمگل کر دیا جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک شادی شدہ خاتون سکھر شہر کے دارالامان میں گزشتہ دو سال سے مقیم ہے۔ پینتیس سالہ شمیلا کا تعلق سندھ کے علاقے گھوٹکی سے ہے۔ شمیلا کے مطابق اس کے ایک رشتہ دار نے ایک پڑوسی سے جائداد کے لین دین کے معاملے پر اس سے دھوکہ کیا۔ جس پر پڑوسی نے انتقاماﹰ شمیلا کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں فروخت کر دیا جو اسے کوئٹہ لے گیا۔ وہ بتاتی ہے، ’’شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود مجھے خریدنے والا شخص شادی کا تقاضا کرتا رہا اور انکار کرنے پر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اپنے پاس کچھ عرصہ رکھنے کے بعد اس نے مجھے کسی دوسرے شخص کو فروخت کر دیا جہاں مستقل عصمت دری کے باعث میں ایک جنسی بیماری کا شکار ہو گئی۔ علاج کی غرض سے مجھے کراچی لایا گیا جہاں ایک ڈاکٹر کو اپنے حالات بتا کر میں نے مدد کی اپیل کی۔ ڈاکٹر نے سکھر جانے کا انتظام کر دیا جہاں پہنچ کر میں نے پولیس کی مدد طلب کی۔‘‘

قوانین کے مطابق عورتوں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کو زیادہ سے زیادہ سزائیں سنائی جا سکتی ہیں
قوانین کے مطابق عورتوں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کو زیادہ سے زیادہ سزائیں سنائی جا سکتی ہیںتصویر: DW

شمیلا کے مطابق اس سارے معاملے میں بے گناہ ہونے کے باوجود اس کے شوہر اور خاندان نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اور اب وہ دو سال سے دارالامان میں بے سہارا زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق خواتین کے اغوا اور ان کی خرید و فروخت کے حوالے سے ملک میں قوانین موجود ہیں، جن کی رو سے کسی بھی عورت کو خریدنے یا فروخت کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ دس سال قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود ان خواتین کے خلاف اس جرم میں اضافہ ہو رہا ہے جو باعث تشویش ہے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ،کراچی

ادارت: افسر اعوان