1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک اساتذہ پاکستان میں ٹھہر سکتے ہیں، پشاور ہائی کورٹ

بینش جاوید
23 نومبر 2016

پشاور ہائی کورٹ نے بدھ کے روز حکومت پاکستان کی جانب سے پاک ترک اسکولوں کے ترک اساتذہ کو ان کے وطن بھیجے جانے کے فیصلے کے خلاف دائر پیٹیشن کی سماعت کے دوران ان اساتذہ کے لیے ’اسٹے آرڈر‘ کو منظور کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2T730
Pakistan Protesten gegen die Abschiebung türkischer Lehrern
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

پاکستانی انگریزی اخبار ڈان پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پشاورہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پاک ترک اسکولوں کے طلبا اور ان کے اساتذہ کی جانب سے دائر کی گئی پیٹیشن کی سماعت کی۔ پیٹیشن میں لکھا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے ان اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو سیاسی وجوہات کے باعث ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا اور ان اساتذہ کا کسی ایسے سیاسی معاملے سے تعلق نہیں ہے۔  پاکستان میں پاک ترک اسکول نیٹ ورک کی 28 شاخیں ہیں جن میں گیارہ سو طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ نے حکومت پاکستان کی جانب سے پاک ترک اسکول میں کام کرنے والے ترک اساتذہ اور دیگر ترک سٹاف کو واپس ترکی بھیجنے کے فیصلے کے خلاف اسٹے آرڈر دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو اس معاملے پر وضاحت پیش کرنے کا نوٹس بھی دے دیا۔ اس کیس کی اگلی سماعت یکم دسمبر کو ہو گی۔

Türkische Lehrerinnen der Pak Turk School in Islamabad
پاکستان میں کئی افراد حکومت کی جانب سے ترک اساتذہ اور ان کے اہل خانہ کو پاکستان چھوڑنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہےتصویر: DW/A. Sattar

ان اسکولوں پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق فتح اللہ گولن تحریک سے ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے پاکستان کے حالیہ دورے کے دوران کہا تھا،’’گولن تحریک سے منسلک کسی بھی تنظیم کو پاکستان میں جگہ نہیں ملے گی۔ پاکستان اور ترکی کے مابین جاری تعاون کے نتیجے میں ان اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘ ترک صدر نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر متحد ہو کر فیصلہ لینے پر پاکستانی انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔

پاکستان میں کئی افراد حکومت کی جانب سے ترک اساتذہ اور ان کے اہل خانہ کو پاکستان چھوڑنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا ہے کہ نواز شریف حکومت نے یہ قدم ’سیاسی وجوہات‘ کی بنا پر اٹھایا ہے۔