ترک، اسرائیل تعلقات معمول کی طرف!
7 دسمبر 2010ترکی کے شہر سیوا میں خطاب کرتے ہوئے ایردوآن نے ایک مرتبہ پھر اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ جانے والے فلوٹیلا پر کی گئی فوجی کارروائی پر معافی مانگے اور مارے جانے والوں کے خاندانوں کو معاوضہ دے۔ ایردوآن نے یہ بھی واضح کیا کہ اسرائیلی جنگلات میں لگی آگ پر قابو پانے میں فراہم کی گئی امداد کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ دو طرفہ تعلقات معمول پر آگئے ہیں، ’ ہمارے نو بھائی مائی مارمارا پر اسرائیلی کارروائی میں شہید کئے گئے، اس کا حساب ہونا چاہیے۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جمعہ کو ذاتی طور پر ترک وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا تھا۔ ان کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اس قدم سے دو طرفہ تعلقات کی بہتری کا آغاز ہوگا۔ واضح رہے کہ شمالی اسرائیل کے جنگلات میں لگی آگ سے 41 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طویل وقفے کے بعد دونوں ممالک کے سفارتکاروں کی جنیوا میں ملاقات ہوئی ہے۔ اسرائیلی ریڈیو کے مطابق ان دو سابق حلیف ممالک کے سفارتکاروں نے تعلقات کی دوبارہ بحالی سے متعلق امور پر غور کیا ہے۔
ترک وزارت خارجہ نے اس حوالے سے باضابطہ بیان جاری کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ اسرائیلی دفتر خارجہ نے بھی ایسا ہی طرز عمل ظاہر کیا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے یوسف چیچانوور کو ترک اہلکار سے ملنے جنیوا بھیجا تھا۔ یہ اسرائیلی سفارتکار فلوٹیلا پر حملے سے متعلق اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن میں تل ابیب حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ جنیوا میں ہوئی ملاقات میں ترکی کی نمائندگی نائب وزیر خارجہ فیریدون سینیرلی اوگلو نے کی۔
فلوٹیلا کے واقعے سے قبل ترکی مسلم دنیا کا و ہ واحد ملک تھا، جس کے اسرائیل کے ساتھ قریبی سیاسی، دفاعی و تجارتی نوعیت کے گہرے روابط قائم تھے۔ ان تعلقات پر پہلی ضرب اس وقت لگی تھی، جب اسرائیلی فوج نے 2008ء دسمبر میں غزہ پر چڑھائی کی تھی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ