1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترک صدر ایردوآن کا ’خاشقجی شو‘، فائدہ کیا ہوا: تبصرہ

24 اکتوبر 2018

جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا ہے اور ان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں، ترک صدر ایردوآن نے یہ بات ٹی وی کیمروں کے سامنے کہی تھی۔ اپنا یہ بیان صدر ایردوآن نے ملکی عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری سے کچھ بالا تر ہو کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/377Mc
ترک صدر رجب طیب ایردوآنتصویر: picture alliance/AA

کئی ماہرین کا سوال یہ ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں اس ماہ کے اوائل میں قتل سے متعلق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے جس طرح اور جتنے بیانات دیے، ان سے ایردوآن اور ترکی کو کیا فائدہ پہنچا۔ کئی تبصرہ نگار اسے صدر ایردوآن کے ’خاشقجی شو‘ کا نام بھی دے رہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ترک زبان کے شعبے کی صحافی حولیہ شَینک کا لکھا تبصرہ:

ترکی کو جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق تمام تر دستیاب وسائل استعمال کرتے ہوئے فوری تفتیش کرنا چاہیے تھی اور عالمی برادری کو اس کی تفصیلات سے بہت پہلے ہی آگاہ کر دینا چاہیے تھا تاکہ اس کیس کی بلاتاخیر وضاحت ہو سکتی۔ اس طرح ترک سربراہ مملکت دو مقاصد حاصل کر سکتے تھے۔ ایک تو عالمی برادری کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا جو گزشتہ برسوں میں بہت کمزور پڑ گیا تھا اور دوسرے ترکی کی اس عدلیہ کا وقار بھی بحال ہو جاتا، جس پر پچھلے کچھ برسوں سے ملکی سیاسی رہنماؤں کے زیر سایہ رہنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

Saudi-Arabien vermisster Blogger Jamal Khashoggi
جمال خاشقجیتصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali

لیکن ترکی نے خود کو حاصل ہونے والا یہ نادر موقع ضائع کر دیا اور جب بھی جمال خاشقجی کے بارے میں کسی نئی اطلاع کے لیے دنیا ترکی کی طرف دیکھتی، تو وہاں سربراہ مملکت کے عہدے پر فائز ایردوآن ہی کچھ نہ کچھ کہتے سنائی دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کے ناقد صحافی خاشقجی کے ترکی میں قتل سے متعلق رجب طیب ایردوآن کا رویہ سیاسی اور عدالتی دونوں حوالوں سے نامناسب تھا۔

صدر کا جج کا سا لہجہ

ترک پولیس اور عدلیہ نے جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد اپنی ابتدائی تفتیش میں ہی کافی کامیابیاں حاصل کر لی تھیں۔ لیکن رجب طیب ایردوآن نے کیا کیا؟ انہوں نے اپنے اولین بیانات کے بعد اس کیس کی بہت سی اہم تفصیلات انقرہ کی قومی پارلیمان میں اپنی جماعت اے کے پی کے پارلیمانی حزب کے ارکان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایسے بیان کیں، جیسے منتخب عوامی نمائندوں کا یہ اجلاس کسی عدالت کا کمرہ تھا اور ایردوآن ملکی صدر نہیں بلکہ جیسے کسی عدالت کے سربراہ تھے یا کوئی وکیل استغاثہ جو ملزمان پر فرد جرم عائد کر رہا ہو۔

اے کے پی کے پارلیمانی دھڑے کے اس اجلاس میں صدر ایردوآن نے ہی بتایا تھا کہ وہ ’ٹیمیں‘ جنہوں نے خاشقجی کو قتل کیا تھا، وہ کس طرح استنبول پہنچی تھیں اور کس طرح ارتکاب جرم کے بعد اس شہر سے رخصت بھی ہو گئی تھیں۔ صدر ایردوآن نے یہ بھی کہا تھا، ’’اب سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ کیس کی تمام تر تفصیلات کے ساتھ اس کی مکمل وضاحت کرے۔‘‘

بات یہ ہے کہ صدر ایردوآن نے یہ باتیں جس لہجے اور جن الفاظ میں کہیں، وہ لہجہ یا الفاظ تو عام طور پر ترک نظام قانون کے تحت ریاستی دفتر استغاثہ کے حکام بھی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نہیں اپناتے۔ اس لیے کہ یہ کام تو کسی جج کا ہوتا ہے، جو وہ ہر کسی کے لیے قابل قبول کوئی عدالتی فیصلہ سناتے ہوئے کرتا ہے۔

Kommentarbild Hülya Schenk PROVISORISCH
ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار حولیہ شَینک

پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کسی بھی جمہوری ریاست میں یہ کام ملکی صدر کا تو نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسے معاملے میں کوئی سیاسی بیان جاری کرے، جس کے بارے میں ماہرین استغاثہ اپنے طور پر تفتیش ابھی جاری رکھے ہوئے ہوں۔

یوں جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے میں اپنے بار بار کے سیاسی بیانات کے ساتھ ترک صدر ایردوآن ایک بار پھر ریاستی آئین کے تحت اختیارات کی تقسیم اور عدلیہ کی آزادی کے آئینی تقاضوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

سعودی شاہی خاندان کے ساتھ تصادم سے پرہیز

جمال خاشقجی کا قتل ایک طرح سے عرب دنیا میں پائی جانے والی طاقت کی کشمکش کا بھی غماز ہے۔ سنی مسلم عرب دنیا اور وہابی نظریات کی حامل عرب ریاستوں کے مابین اسی کھچاؤ کے پس منظر میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جمال خاشقجی نظریاتی طور پر اخوان المسلمون کے کچھ قریب تھے۔ یہ تنظیم کئی عرب ممالک میں موجود لیکن ممنوع قرار دی گئی ایک ایسی مسلم تحریک ہے، جسے سعودی شاہی خاندان اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

دوسری طرف ترکی میں صدر ایردوآن بھی اخوان المسلمون کے ساتھ کچھ نظریاتی قربت اور اخلاقی ہمدردی تو رکھتے ہیں لیکن یہ بھی نہیں چاہتے کہ انقرہ حکومت اور ریاض میں سعودی شاہی خاندان کے مابین کوئی براہ راست سیاسی تصادم ہو جائے۔ شاید اسی لیے خاشقجی کی گمشدگی اور پھر ان کے قتل کی تفتیش پہلے دن سے ہی سست رفتار اور بہت پیچیدہ رہی۔

سزا مجرم کے لیے، ’خفیہ ہاتھ‘ کے لیے نہیں

جمال خاشقجی کے قتل کی چھان بین میں اب تک اسے ایک عام قتل کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے، حالانکہ سعودی حکمران یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ قتل ایک ’بہت بڑی اور سنگین غطی‘ تھی۔ صدر ایردوآن سعودی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں کہ اس مقدمے کی سماعت ترکی میں ہونا چاہیے اور ریاض حکومت اب تک سعودی عرب میں اس سلسلے میں گرفتار کیے گئے 18 ملزمان کو ترکی کے حوالے کر دے۔

لیکن ساتھ ہی یہ اشارے بھی واضح ہیں کہ اس قتل کے مرتکب افراد کے طور پر اس میں براہ راست ملوث ملزمان کو سزائیں دلوانے کی بات تو کی جا رہی ہے تاہم یہ کوئی نہیں کہتا کہ اس قتل کا مبینہ طور پر حکم دینے والے ’خفیہ ہاتھ‘ سے کیسے نمٹا جائے۔ یہ بات اس لیے بھی قابل غور ہے کہ بہت سے حلقے خاشقجی کی موت کے سلسلے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا نام بھی لے رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ قانونی تفتیشی حقائق کن عوامل کی تصدیق کرتے ہیں، انہی دعووں کے تناظر میں خود سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر بھی کہہ چکے ہیں کہ اس قتل سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کسی بھی طرح کوئی تعلق نہیں ہے۔

جہاں تک خاشقجی کے قتل اور ترک صدر ایردوآن کے سیاسی رویے اور بیانات کا سوال ہے تو حتمی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں صدر ایردوآن نے ترک عدلیہ کو عملاﹰ خود نہ بول سکنے والا ایک ایسا بچہ سمجھا، جسے اپنا موقف کہنے یا اس کے اظہار کی اجازت ہی نہیں تھی۔

حولیہ شَینک / م م / ع ا