ترک وزیر کی ہالینڈ سے بے دخلی کے بعد دوطرفہ کشیدگی
ہالینڈ سے ترک وزیر فاطمہ بتول سایان کایا کی بے دخلی کے بعد روٹرڈیم اور استبول میں مظاہرے کیے گئے۔ اس دوران مظاہرین نے استنبول شہر میں واقع ڈچ قونصل خانے سے ڈچ پرچم عارضی طور پر اتار کر وہاں ترک پرچم بھی لہرا دیا۔
پولیس کی نگرانی میں واپسی
ہالینڈ پہنچنے پر ڈچ پولیس نے ترک وزیر برائے خاندانی امور فاطمہ بتول سایان کایا کو اپنی حفاظت میں بے دخل کر کے واپس جرمنی پہنچا دیا۔ وہ روٹرڈیم میں ترک باشندوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے لیے وہاں پہنچی تھیں۔ خاتون وزیر کی اس طرح ملک بدری کے بعد روٹرڈیم میں مظاہرے شروع ہو گئے۔
’ترک وزیر خارجہ پر پابندی‘
ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم میں ترک باشندوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرنا چاہتے تھے لیکن ہفتہ گیارہ مارچ کے روز ڈچ حکومت نے ترک وزیر کو لے کر آنے والی ایک پرواز کو اپنے ہاں اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس طرح ترک وزیر خارجہ ہالینڈ نہ جا سکے۔
درجن بھر مظاہرین گرفتار
ڈچ پولیس کے مطابق روٹرڈیم میں واقع ترک قونصل خانے کے باہر سے بارہ مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا۔ پولیس کے مطابق ان مظاہرین نے اتوار کو علی الصبح پولیس پر پتھراؤ کیا، جس کے بعد نقص امن کے الزامات کے تحت انہیں گرفتار کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس مظاہرے کے دوران سات افراد زخمی بھی ہو گئے۔
انقرہ کی طرف سے کڑی تنقید
ترک وزیر خارجہ پر پابندی کے بعد ترک حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ روٹرڈیم میں ترک باشندوں کے اجتماع سے خاندانی امور کی ترک خاتون وزیر فاطمہ بتول سایان کایا خطاب کریں گی۔ یہ ترک وزیر جب روٹرڈیم پہنچیں تو حکام نے انہیں بھی خطاب کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
ڈچ حکومت کا موقف
روٹرڈیم میں شروع ہونے والے ترک باشندوں کے مظاہرے وہاں ترکی کے قونصل خانے کے باہر شروع ہوئے اور اس بارے میں ڈچ حکومت نے کہا کہ اس نے انقرہ حکومت کو مطلع کر دیا تھا کہ حکومت اس ریلی کی اجازت نہیں دے سکتی، جس کے انعقاد کا مطلب یہ ہوتا کہ ہالینڈ کی سلامتی اور امن عامہ پر سمجھوتہ کر لیا گیا ہے۔
متنازعہ ریفرنڈم کی تیاریاں
اپریل کے وسط میں ترکی میں ایک آئینی ریفرنڈم ہو رہا ہے، جس میں ترک ووٹروں سے ملک میں صدارتی نظام جمہوریت متعارف کرانے کے بارے میں رائے لی جائے گی۔ ترک حکومتی سیاستدان ہالینڈ اور جرمنی میں آباد لاکھوں ترک ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان ممالک میں ترک سیاسی ریلیوں سے خطاب کرنا چاہتے تھے۔
خاتون وزیر کی وطن واپسی
ترک وزیر فاطمہ بتول سایان کایا اتوار کے دن وطن واپس پہنچیں تو انہوں نے ہالینڈ سے اپنی بے دخلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ کسی خاتون وزیر کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنا انتہائی برا رویہ ہے۔ اس ترک وزیر کے بقول ہالینڈ میں ان کے ساتھ برا سلوک کیا گیا، جو قابل مذمت ہے۔
تارکین وطن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش
ہالینڈ اور ترکی کے مابین یہ کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی، جب ڈچ حکومت نے اپنے ہاں ترک باشندوں کی طرف سے منعقد کی جانے والی ریلیوں سے ترک رہنماؤں کے خطاب پر پابندی عائد کر دی۔ جرمنی اور ہالینڈ میں لاکھوں کی تعداد میں ترک نژاد تارکین وطن آباد ہیں، جو ترک شہری ہونے کی وجہ سے اس ریفرنڈم میں ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں۔
ہالینڈ میں ترک باشندوں کی جڑیں
ہالینڈ میں قریب چار لاکھ ایسے ترک نژاد باشندے آباد ہیں، جو سولہ اپریل کو اپنے آبائی وطن میں ہونے والے ریفرنڈم میں ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں۔ ترک حکومتی وزراء اسی وجہ سے ایسے ترک باشندوں کے سیاسی اجتماعات سے خطاب کرنا چاہتے تھے۔
واٹر کینن کا استعمال
ترک خاتون وزیر کو ملک سے نکالنے پر روٹرڈیم میں جمع ترک صدر ایردوآن کی سیاسی جماعت کے حامی ترک شہریوں نے مظاہرے شروع کر دیے، جن پر قابو پانے کے لیے ڈچ پولیس کو اپنے گھڑ سوار دستوں اور واٹر کینن یا پانی کی تیز دھار کا استعمال بھی کرنا پڑا۔