ترکی، آرمینیا باہمی تعلقات: بحالی کا معاہدہ
10 اکتوبر 2009ترکی اور آرمینیا آج ہفتہ کو ایک تاریخی سمجھوتے پر دستخط کرنے والے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان مصالحتی عمل کو فروغ دینا ہے۔ معاہدہ طے پا نے پر امید کی جا رہی ہے کہ ایک صدی پر پھیلی کشیدگی اور بدگمانی کی فضا کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
اِس سمجھوتے کو عالمی سطح پر انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے اور اس کی تصدیق بھی امریکی اور روسی حکام نے کی ہے۔ معاہدے کی اہمیت کے پیش نظر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن ہفتہ کی تقریب میں شرکت کر رہی ہیں۔ معاہدے کی تقریب کے انعقاد بارے سوئٹزرلینڈ کے حکومت کی جانب سے بھی اعلان کردیا گیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور منافرت کی جو وجہ بیان کی جاتی ہے وہ پہلی عالمی جنگ کے دوران ترکی میں آباد آرمینیائی باشندوں کا قتل عام تھا، جس میں اُس وقت کی سلطنتِ عثمانیہ کے وزراء کی مداخلت اور شمولیت کو آرمینیائی باشندے یقین کی حد تک بیان کرتے ہیں۔ اِس قتلِ عام کا انکار اب تک ترکی کی حکومتیں ، اشرافیہ اور محققین کرتے آ رہے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کی مسلسل مشاورت اور ثالثی کے باعث دونوں ملک اِس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ وہ دو مختلف دستاویزات پر دستخط کریں گے، جن میں سے ایک کے تحت دونوں ملکوں کے دارالحکومتوں یعنی انقرہ اوریریوان میں ایک دوسرے کے سفارت خانے قائم کئے جائیں گے اور دوسری دستاویز کے تحت سرحدیں کھولی جائیں گی تا کہ عوامی آمدورفت سے حکومتوں کے درمیان بھی بہتر تعلقات استوار ہوں۔ اِن پروٹوکول پر ترک وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو اور آرمینیا کے وزیر خارجہ ایڈورڈ نالبندیان دستخط کریں گے۔
ہفتہ کو سوئٹزر لینڈ کےشہر زیورخ میں ہونے والی اس تقریب میں شرکت کے لئے خاص طور مہمانوں کو معو کیا گیا ہے۔ خاص مہمانوں میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، روسی وزیر خاجہ سرگئی لاوروف، فرانسیسی وزیر خارجہ بیرنارد کوشنیر خاص طور پر شامل ہوں گے۔ جب کہ سلووینیہ کے وزیر خارجہ Samuel Zboga یورپی یونین کے خارجہ امور کے چیف خاوئیر سولانہ کی نمائندگی کریں گے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اِس معاہدے سے ترکی کی یوپی یونین میں شمولیت کی خواہش کو تقویت ملنے کے ساتھ اُس کے قفقاذ کے خطے میں اثر و رسوخ میں بھی وسعت پیدا ہو گی۔ اِن کا مزید کہنا ہے کہ معاہدے سے جہاں ترکی اور آرمینیا کے درمیان مصالحتی عمل کا آغاز ہو گا وہیں عالمی سطح پر اُن کے وقار میں اضافے بھی ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کو پہلی عالمی جنگ کے بعد ترکی میں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام پر ترکی کی رضامندی سے ایک تحقیقی کمیشن قائم کرنے پر اندرون اور بیرون ملک تنقید کا سامنا ہے کیونکہ اس سے آرمینیا کے دعویے کو ٹھیس بھی لگ سکتی ہے۔ آرمینیا کا خیال ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد پندرہ لاکھ آرمینیاسی باشندوں کا قتلِ عام ہوا تھا جبکہ ترکی اتنی بڑی تعداد کو غلط قرار دیتا ہے۔ ترک محققین کے خیال میں ہلاک ہونے والے آرمینیاسی باشندوں کے تعداد دو لاکھ کے قریب ہے۔
آرمینیا کو ترکی کے علاوہ آذربائیجان کے ساتھ بھی نگورنو کاراباخ کے علاقے پر تنازعے کا سامنا ہے۔ امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ ترکی کے ساتھ سفارتی روابط کی بحالی کے بعد اِس تنازعے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جا سکے گا۔ ترکی نے نگورنو کاراباخ کے تنازعے پر سن 1993 میں آرمینیا کے ساتھ اپنی سرحد بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تبھی سے سفارتی تعلُقات بھی منقطع ہیں۔ آذربائیجان کے ترکی کے ساتھ گہرے سماجی، ثقافتی، لسانی اور نسلی روابط ہیں۔
ہفتہ کو زیورخ میں دستخط کے بعد ترکی اور آرمینیا کے درمیان ورلڈ کپ کوالیفائنگ مرحلے کے میچ کا دوسرا مرحلہ بھی شڈیول ہے۔ اِس میچ کو بھی سفارتی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ ترکی کے صدر عبداُللہ گُل نے آرمینیا کے صدر Serzh Sarkisian کو میچ دیکھنے کے لئے مدعو کر رکھا ہے۔ یہ میچ آئندہ بدھ کو کھیلا جائے گا۔ اس سے قبل ترکی کی فٹ بال ٹیم جب اپنا میچ کھیلنے یراوان گئی تھی تو ترک صدر وہ میچ دیکھنے آرمینیا گئے تھے۔