ترکی اور شام میں تباہ کن زلزلہ، ایک ماہ بعد صورتحال کیسی ہے؟
6 مارچ 2023چھ فروری کو اس خطے میں آنے والے زلزلے کے بعد سے کم از کم 50 ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں۔ تخمینوں کے مطابق دو لاکھ چودہ ہزار سے زائد عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں یا انہیں جزوی نقصان پہنچا ہے۔ لاکھوں لوگوں کو فوری امداد کی اب بھی اشد ضرورت ہے۔
اموات اور مادی نقصانات ترکی کے 11 صوبوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ زلزلے کے ایک ماہ بعد وہاں مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہےکیونکہ متعدد متاثرین کی شناخت ہونا ابھی باقی ہے۔ بہت سے لوگوں کو ابھی تک سرکاری طور پر بطور مردہ رجسٹر نہیں کیا گیا کیونکہ زندہ بچ جانے والے اپنے رشتہ داروں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب ڈی ڈبلیو کی جانب سے پوچھا گیا کہ کتنے لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں تو ترکی کی وزارت انصاف نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
زلزلے کے فوری بعد زندہ بچ جانے والوں کا غم غصے سے جڑا ہوا تھا۔ لوگوں نے سوال کرنا شروع کر دیا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی عمارتیں، جو کہ زلزلہ پروف سمجھی جاتی تھیں، محض منہدم ہو گئیں۔ مقامی رہائشیوں کی جانب سے اس کا الزام حکومتی اداروں پر ڈالا گیا کہ یہ انتظامیہ کی بے پروائی کی وجہ سے ہوا ہے۔
سائنسی ترقی زلزلوں کا پیشگی پتہ چلانے میں ناکام کیوں؟
بہت سے کیسز میں تعمیراتی کمپنیوں نے بلڈنگ سیفٹی کوڈز پر عمل نہیں کیا۔ ابھی تک تقریباً ایک ہزار لوگوں پر باضابطہ طور پر شک ہے کہ انہوں نے تعمیراتی ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ حکومت کی جانب سے کم از کم 235 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، 330 کی عدالتی حکم کے مطابق نگرانی کی جا رہی ہے اور چار ٹھیکیدار مقدمے سے پہلے حراست میں ہیں۔
ترکی میں لاکھوں بچے زخمی اور بے گھر
یونیسیف کے مطابق زلزلے سے تقریباً 50 لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں۔ یکم مارچ کو ترکی کی خاندانی و سماجی خدمات کی وزارت نے کہا تھا کہ کھنڈرات سے بچائے گئے 19 سو سے زائد بچوں میں سے 15 سو سے زائد کو ان کے اہل خانہ تک پہنچا دیا گیا ہے۔ تقریباً 100 خود وزارت کی دیکھ بھال میں ہیں اور 81 کی شناخت ابھی باقی ہے۔
دوسری جانب ترک حکومت نے ایسی رپورٹوں کو مسترد کیا ہے کہ متعدد بچوں کو اسلامی اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے تاکہ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھا جا سکے۔
انتخابات اور تعمیر نو پر اربوں ڈالر درکار
چند ماہ بعد ترکی میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں جبکہ حکومت تنقید کی زد میں ہے۔ زلزلے کے بعد انتخابی مہم کچھ عرصے کے لیے ملتوی کی گئی لیکن اب دوبارہ اس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں ووٹنگ کیسے ہو گی؟
ایک تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ زلزلہ زدہ علاقوں کے ووٹر صدارتی ووٹ کے لیے دوسرے شہروں میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے لیکن پارلیمانی انتخابات کے لیے ایسا نہیں ہو سکے گا۔
دوسری جانب ترکی پہلے ہی معاشی بحران سے دوچار تھا اور اب تعمیر نو کا مشکل مرحلہ بھی درپیش ہے۔ ورلڈ بینک نے حساب لگایا ہے کہ زلزلے سے کم از کم 34.2 بلین ڈالر کا مادی نقصان ہوا ہے۔ ترکی کے شماریاتی دفتر کے مطابق زلزلہ زدہ علاقوں کے 11 اہم شہروں میں تقریباً 14 ملین افراد رہائش پذیر ہیں۔ ان علاقوں کی معیشت زراعت اور مویشی پالنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل، اسٹیل اور توانائی پر مبنی ہے اور یہ ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 9.8 فیصد بنتی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ تباہی بہت سی مصنوعات اور خدمات کی مانگ میں اضافے کا باعث بنے گی، جس کے نتیجے میں افراط زر کو بھی ہوا ملے گی، جو پہلے ہی زیادہ ہے۔ ماہر معاشیات مورات کوبیلے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ 2023ء کے آخر تک افراط زر کم از کم بھی 50 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
شام میں خانہ جنگی اور نامعلوم اعداد و شمار
شمالی شام میں چھ فروری کو آنے والا زلزلہ ایک ایسے علاقے کے لیے تازہ ترین دھچکا تھا، جو پہلے ہی 12 سال سے جاری خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا تھا۔ تباہی کے ہفتوں بعد بھی شامی علاقوں سے بہت کم معلومات سامنے آئی ہیں جبکہ وہاں بہت سے لوگ برسوں کی لڑائی کے بعد غیر محفوظ ماحول میں رہ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ وہاں بھی زلزلے سے تقریباً 8.8 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے بہت سے لوگ اب بے گھر ہیں۔ سرکاری طور پر شام میں تقریبا چھ ہزار اموات کی اطلاع ہے لیکن اصل تعداد شاید اس سے کہیں زیادہ ہے۔
بین الاقوامی سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے بہت سے شامیوں کو زلزلے کے بعد ابتدائی چند دنوں میں تو کوئی مدد ہی نہیں مل سکی۔ اگرچہ اب شام میں امداد بھیجی جا رہی ہے لیکن وہ متاثرہ لوگوں تک نہیں پہنچ رہی ہے۔ زلزلہ زدہ علاقے کے بڑے حصے حکومت کے مکمل کنٹرول میں نہیں ہیں۔
ادلب شہر مؤثر طور پر باغیوں کا آخری گڑھ ہے اور وہاں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ بنیادی طور پر یہ شہر اسلامی ملیشیا کے زیر کنٹرول ہے۔ مبصرین نے کہا ہے کہ سرکاری امداد وہاں تک نہیں پہنچ رہی۔ زلزلے سے پہلے ہی شمال مغربی شام میں 1.8 ملین کے قریب بے گھر افراد عارضی خیموں اور پناہ گاہوں میں رہ رہے تھے۔
رائنر زولش (ا ا / ک م)