1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی، روس اور ایران ادلب میں جنگ بندی پر متفق نہ ہو سکے

7 ستمبر 2018

روس، ایران اور ترکی کے صدور کے درمیان شامی صوبے ادلب میں جنگ بندی کے حوالے سے تہران میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ تاہم تینوں ممالک نےاتفاق کیا ہے کہ ادلب کے تنازعے کا صرف سیاسی حل ہی ممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/34VWE
Iran Teheran - Hassan Rouhani, Recep Tayyip Erogan und Vladimir Putin bei Pressekonferenz
تصویر: Getty Images/AFP/K. Kudryavtsev

ایران، ترکی اور روس کے صدور کے درمیان شورش زدہ شامی صوبے ادلب کے مستقبل پر بات کرنے کے لیے آج تہران میں اہم مذاکرات ہوئے۔ تاہم ادلب میں جنگ بندی کے حوالے سے شام کی جنگ کے اہم بیرونی فریقین یعنی ان تینوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ ایران اور روس نے ادلب کو باغیوں سے چھڑانے کے لیے فوجی آپریشن کی حمایت کی جب کہ ترکی نے جنگ بندی کی اپیل کی۔

مذاکرات کے بعد تینوں صدور کی جانب سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں باغیوں کے زیر قبضہ ادلب صوبے کے تنازعے کا فوجی حل ممکن نہیں۔ اس مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل نکالا جانا چاہیے۔ اس دستاویز کے مطابق ایران، ترکی اور روس کے صُدور نے ادلب کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور اس مسئلے سے آستانہ فارمیٹ کی طرز پر نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔

Syrien Russische Luftangriffe nahe Idlib
‘شمال مغربی شامی صوبے ادلب میں فوجی کارروائی شہری آبادی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے’تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour

تینوں رہنماؤں کے مابین ملاقات کے بعد روسی صدر پوٹن نے ایک بیان میں کہا،’’ ہم نے ادلب میں غیر جنگ زدہ علاقے میں تسلسل کے ساتھ مرحلہ وار استحکام کے قیام کے لیے ٹھوس اقدامات پر بات چیت کی ہے۔ ادلب میں اُن باغی گروپوں کے ساتھ امن قائم کرنے کا بھی امکان ہے جو مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس علاقے میں بر سر پیکار دہشت گرد گروپوں کے نمائندے عقل سے کام لیتے ہوئے مزاحمت ترک کر دیں گے اور ہتھیار ڈال دیں گے۔‘‘

اس سے قبل ترک صدر رجب طیب ایردوان نے انہی مذاکرات کے دوران کہا تھا کہ ان کا ملک ادلب سے فرار ہو کر آنے والے لاکھوں مہاجرین کی میزبانی کی سکت نہیں رکھتا۔  ایردوان نے مزید کہا کہ ادلب میں برسر پیکار عسکریت پسند گروپوں سے ہتھیار پھینکنے کا مطالبہ ایک واضح پیغام تھا جس سے مہاجرین کے بہاؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ علاوہ ازیں ترک صدر  نے شامی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ  شمال مغربی شامی صوبے ادلب میں جنگ بندی کا اعلان کرے۔ ایردوان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ادلب میں شامی حکومت کی جانب سے کارروائی نہ روکی گئی تو یہ اس کے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ بن سکتا ہے جو ایک انسانی المیے کو جنم دے گا۔

Syrien Rebellen in Idlib-Provinz
تصویر: Getty Images/AFP/N. Al-Khatib

دوسری جانب ایران نے تہران میں ہونے والے ان مذاکرات میں شام میں موجود امریکی افواج کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ شام میں امریکا کے دو ہزار سپاہی موجود ہیں۔ صدر روحانی کا کہنا تھا،’’ ہمیں امریکا کو شام سے نکلنے پر مجبور کرنا ہو گا۔‘‘

اس سے قبل سلامتی کونسل میں یورپی ممالک نے روس اور ایران سے شام میں جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ برطانیہ، فرانس، سویڈن، پولینڈ اور ہالینڈ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ شمال مغربی شامی صوبے ادلب میں فوجی کارروائی شہری آبادی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

ص ح / ا ا / نیوز ایجنسیاں