1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی اظہار

ترکی، سوشل میڈیا پر حکومتی کنٹرول کے نئے قواعد

6 اکتوبر 2020

ترکی میں سوشل میڈیا پر قابو پانے کے لیے پہلی اکتوبر سے نئے متنازعہ قواعد لاگو ہوگئے ہیں، جن کے تحت حکام فیس بُک اور ٹوئٹر جیسی کمپنیوں پر شکنجہ کس سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3jUCI
Türkei Präsident Erdogan
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kamaci

یہ قواعد جولائی میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی خواہش پر پارلیمان سے ایک نئے قانون کی منظوری کے بعد متعارف کرائے گئے ہیں۔  

حکومت کے مطابق اس قانون کا مقصد انٹرنیٹ سے غیراخلاقی مواد اور سائبر جرائم کا خاتمہ ہے۔ لیکن ناقدین کے بقول نئے قانون کے تحت حکام کو سوشل میڈیا پر سینسر شپ کے حوالے سے وسیع اختیارات مل گئے ہیں۔

سوشل میڈیا سینسرشپ کا نیا دور

ترکی میں پہلے ہی میڈیا پر کافی قدغنیں ہیں اور حکام آئے دن سرکار کی ایما پر آن لائن مواد بلاک کرتے رہتے ہیں۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم  ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ قواعد ترکی میں حکام کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کا حصہ ہیں۔ تنظیم سے وابستہ اہلکار ایما سنکلیئر ویب کے مطابق ریڈیو اور ٹی وی پر سرکاری کنٹرول کے باعث لوگ خبروں اور معلومات کے لیے سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

Medien Türkei Istanbul Zeitungskiosk
تصویر: Getty Images/C. McGrath

ترکی میں روایتی میڈیا پر حکومت کے خلاف تنقید کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا اس پر اعتبار اٹھ چکا ہے۔

جرمنی کی وزارت خارجہ کے مطابق، ترکی میں میڈیا کی 90 فیصد کمپنیوں کے مالی یا ذاتی تانے بانے حکومتی پارٹی اے کے پی سے ملتے ہیں۔

 نئے قواعد کیا کہتے ہیں؟

نئے قواعد کے تحت حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ لوگوں میں مقبول فیس بک اور ٹوئٹر جیسی عالمی سوشل میڈیا کمپنیوں سے تقاضہ کرے کہ وہ ملک کے اندر اپنے نمائندے نامزد کریں۔

قانون کے مطابق اگر سوشل میڈیا کمپنیاں اس سے انکار یا مزاحمت کرتی ہیں تو ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، ان کے اشتہارات پر پابندی لگائی جا سکتی ہے او ان کے لیے انٹرنیٹ اسپیڈ اتنی کم اور سُست کی جا سکتی ہے کہ وہ چل ہی نہ پائیں۔

DW Im Ring mit Nalan
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Bozoglu

اگر عدالتی حکم کے بعد کمپنیاں چوبیس گھنٹوں کے اندر قابل اعتراض مواد ہٹانے یا اسے بلاک کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو ان پر جرمانے عائد کیے جا سکیں گے۔ اس قانون کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں پر لازم ہوگا کہ وہ صارفین کا ڈیٹا ملک کے اندر ہی جمع کریں۔ ناقدین کے مطابق اس سے حکام جب چاہیں اپنے شہریوں کی نجی معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔

جرمن اور ترک قوانین میں فرق 

ترک حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے نئے قواعد دراصل جرمن 'نیٹ ورک انفورسمنٹ ایکٹ‘ سے ملتے ہیں جس کا مقصد سوشل میڈیا پر نفرت اور تشدد پر اکسانے والوں اور دہشتگردی کے عزائم رکھنے والوں پر قابو پانا ہے۔

ترکی میں ماہرین یہ بات تو مانتے ہیں کہ سوشل میڈیا کو جرائم پیشہ مقاصد سے پاک رکھنے کے لیے کوئی نظام تو ہونا چاہییے۔

Türkei Istanbul Reporer ohne Grenzen protestieren
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

لیکن  ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ اہلکار ایما سنکلیئر ویب کے مطابق ایسے میں ترکی کا موازنہ جرمنی سے نہیں بنتا کیونکہ ترکی کے برعکس جرمنی میں جمہوری ادارے مضبوط ہیں اور عدلیہ آزاد ہے۔  

ترکی میں پہلے ہی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد پابند سلاسل ہے۔ ان میں اکثر کو سن دو ہزار سولہ میں صدر ایردوآن کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

حکومت پر الزام ہے کہ اس نے تنقیدی صحافت کرنے والے میڈیا ہاؤسز کے اشتہارات روکنے کے طرح طرح کے حربے استعمال کیے اور کمپنیوں پر دباؤ ڈالا اور دھمکیاں دیں کہ وہ زیرعتاب میڈیا کو اشتہارات نہ دیں۔

ترکی 'رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کی آزادئ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 154 پر آتا ہے۔

ش ج / ک م (ڈی پی اے، اے پی)