ترکی، سوشل میڈیا پر حکومتی کنٹرول کے نئے قواعد
6 اکتوبر 2020یہ قواعد جولائی میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی خواہش پر پارلیمان سے ایک نئے قانون کی منظوری کے بعد متعارف کرائے گئے ہیں۔
حکومت کے مطابق اس قانون کا مقصد انٹرنیٹ سے غیراخلاقی مواد اور سائبر جرائم کا خاتمہ ہے۔ لیکن ناقدین کے بقول نئے قانون کے تحت حکام کو سوشل میڈیا پر سینسر شپ کے حوالے سے وسیع اختیارات مل گئے ہیں۔
سوشل میڈیا سینسرشپ کا نیا دور
ترکی میں پہلے ہی میڈیا پر کافی قدغنیں ہیں اور حکام آئے دن سرکار کی ایما پر آن لائن مواد بلاک کرتے رہتے ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ قواعد ترکی میں حکام کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کا حصہ ہیں۔ تنظیم سے وابستہ اہلکار ایما سنکلیئر ویب کے مطابق ریڈیو اور ٹی وی پر سرکاری کنٹرول کے باعث لوگ خبروں اور معلومات کے لیے سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
ترکی میں روایتی میڈیا پر حکومت کے خلاف تنقید کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا اس پر اعتبار اٹھ چکا ہے۔
جرمنی کی وزارت خارجہ کے مطابق، ترکی میں میڈیا کی 90 فیصد کمپنیوں کے مالی یا ذاتی تانے بانے حکومتی پارٹی اے کے پی سے ملتے ہیں۔
نئے قواعد کیا کہتے ہیں؟
نئے قواعد کے تحت حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ لوگوں میں مقبول فیس بک اور ٹوئٹر جیسی عالمی سوشل میڈیا کمپنیوں سے تقاضہ کرے کہ وہ ملک کے اندر اپنے نمائندے نامزد کریں۔
قانون کے مطابق اگر سوشل میڈیا کمپنیاں اس سے انکار یا مزاحمت کرتی ہیں تو ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، ان کے اشتہارات پر پابندی لگائی جا سکتی ہے او ان کے لیے انٹرنیٹ اسپیڈ اتنی کم اور سُست کی جا سکتی ہے کہ وہ چل ہی نہ پائیں۔
اگر عدالتی حکم کے بعد کمپنیاں چوبیس گھنٹوں کے اندر قابل اعتراض مواد ہٹانے یا اسے بلاک کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو ان پر جرمانے عائد کیے جا سکیں گے۔ اس قانون کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں پر لازم ہوگا کہ وہ صارفین کا ڈیٹا ملک کے اندر ہی جمع کریں۔ ناقدین کے مطابق اس سے حکام جب چاہیں اپنے شہریوں کی نجی معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔
جرمن اور ترک قوانین میں فرق
ترک حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے نئے قواعد دراصل جرمن 'نیٹ ورک انفورسمنٹ ایکٹ‘ سے ملتے ہیں جس کا مقصد سوشل میڈیا پر نفرت اور تشدد پر اکسانے والوں اور دہشتگردی کے عزائم رکھنے والوں پر قابو پانا ہے۔
ترکی میں ماہرین یہ بات تو مانتے ہیں کہ سوشل میڈیا کو جرائم پیشہ مقاصد سے پاک رکھنے کے لیے کوئی نظام تو ہونا چاہییے۔
لیکن ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ اہلکار ایما سنکلیئر ویب کے مطابق ایسے میں ترکی کا موازنہ جرمنی سے نہیں بنتا کیونکہ ترکی کے برعکس جرمنی میں جمہوری ادارے مضبوط ہیں اور عدلیہ آزاد ہے۔
ترکی میں پہلے ہی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد پابند سلاسل ہے۔ ان میں اکثر کو سن دو ہزار سولہ میں صدر ایردوآن کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
حکومت پر الزام ہے کہ اس نے تنقیدی صحافت کرنے والے میڈیا ہاؤسز کے اشتہارات روکنے کے طرح طرح کے حربے استعمال کیے اور کمپنیوں پر دباؤ ڈالا اور دھمکیاں دیں کہ وہ زیرعتاب میڈیا کو اشتہارات نہ دیں۔
ترکی 'رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کی آزادئ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 154 پر آتا ہے۔
ش ج / ک م (ڈی پی اے، اے پی)