ترکی: صحافیوں پر جاسوسی کے مقدمے کی سماعت
25 مارچ 2016ترکی کی حکومت کی طرف سے شامی باغیوں کو مبینہ طور پر اسلحہ اسمگل کرنے سے متعلق اپنی رپورٹس کے ذریعے ملکی راز افشا کرنے کے ملزمان دو ترک صحافیوں کی مقدمے کی سماعت پچیس مارچ بروز جمعہ سے شروع ہو گئی ہے۔
روزنامہ ’جمہوریت‘ کے مدیر اعلیٰ جان دوندار اور انقرہ کے بیورو چیف اردم گل پر ایک ایسی کہانی شائع کرنے پر مقدمہ شروع کیا گیا ہے، جس میں ان صحافیوں نے صدر ایردوان کی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے شامی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان صحافیوں کو ترکی میں خفیہ معلومات شائع کرنے کے انتہائی متنازعہ الزامات کا سامنا ہے۔ عدالت نے اس کیس کی کارروائی کو عوام اور میڈیا سے خفیہ رکھنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس خبر کے شائع ہونے پر صدر ایردوان بہت ناراض تھے اور انہوں نے دندار کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسے ’اس کہانی کو شائع کرنے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی‘۔
عدالت جانے سے پہلے میڈیا سے بات کرتے ہوئے دندار نے کہا، ’’ترکی کی آئینی عدالت نے کہا ہے کہ ہم صحافتی اصولوں پر کام کر رہے تھے لیکن غیر قانونی صدارتی محل کی پوری کوشش ہے کہ ہمیں دوبارہ جیل بھیجا جائے۔‘‘ ان دو صحافیوں کو گزشتہ سال نومبر میں حراست میں لیا گیا تھا، جس کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔
اس کیس کے حوالے سے صدر رجب طیب ایردوان کے دور میں ترکی میں صحافتی آزادی کے بارے میں ایک مرتبہ پھر تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ اس سال فروری میں ترکی کی آئینی عدالت نے فیصلہ سنایا تھا کہ ان کی حراست سے ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
اگست 2014 میں رجب طیب ایردوان کے صدر بننے کے بعد سے اب تک 2000 افراد کے خلاف ایردوان کی توہین کرنے کے جرم میں مقدمات چلائے جا چکے ہیں۔ ان صحافیوں پر دوبارہ سے مقدمہ چلانے پر ترک حکومت کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا بھی ہے۔
اس کیس کے حوالے سے ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے سکریٹری جنرل نے کہا ہے، ‘‘ یہ دو صحافی ہیں نا کہ دو خطرناک دہشت گرد، دوندار اور گل کا عدالتی کیس ترکی میں قانون کی عمل داری کے حوالے سے ایک امتحان ہے۔‘‘