ترکی میں آئینی ریفرینڈم : کل اتوار کے روز
11 ستمبر 2010وزیراعظم رجب ایردوآن کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت جس آئینی ترمیمی پروگرام کی حمایت کر رہی ہے، اس کا مقصد ملک میں سول سوسائٹی کے کردار کو مضبوط بنانا اور ترکی کو یورپی ریاستی اور سماجی معیارات سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرنا ہے۔
ترکی میں بہت زیادہ آبادی والے شہر استنبول سے لے کر وسطی اناطولیہ کے دیہات تک اس ریفرنڈم سے پہلے نظر آنے والی گرم جوشی سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ نوجوان ترک نسل اس بات کی حامی ہے کہ ترکی کو یورپ اور یورپی یونین کے قریب تک لایا جائے۔
30 سال سے کم عمر کے ترک شہریوں میں دو تہائی باشندے یہ یقین رکھتے ہیں کہ ترکی میں جمہوری مستقبل کو بہتر بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سیکیولر اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ان مجوزہ اصطلاحات کے ساتھ ایردوآن کی اسلامی رجحانات رکھنے والی جماعت AKP پارٹی عدلیہ اور ایسے ہی دیگر بڑے ریاستی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لانا چاہتی ہے۔ ترک اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ موجودہ وزیر اعظم درپردہ ایک ایسے ایجنڈے کی حمایت کر رہے ہیں، جو اسلامی نوعیت کا ہے۔
ان پارٹیوں کا الزام ہے کہ ترکی میں حکمران جماعتAKP نوجوانوں کو مذہبی سوچ کی ترغیب دے کر جدید ترکی کو ایک ایسی ریاست بنانا چاہتی ہے، جس سے87 برس قبل ترکوں نے چھٹکارہ حاصل کیا تھا۔
ترکی میں کل کے ریفرنڈم، جن آئینی اصلاحات کو منظور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ ترک فوجی اہلکاروں کی طرف سے بغاوت کے مقدمات کسی بھی نظام کے تحت آئندہ ملک کی سول عدالتوں میں چلائے جا سکیں گے۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں آئینی ترامیم منظور کرا کر AKPکی حکومت فوج کو بھی اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے۔
وزیر اعظم ایردوآن اس کو بھی محض اپوزیشن کے ایک الزام کا نام دیتے ہیں ۔ ترکی میں اس ریفرنڈم کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ اس ریفرنڈم کی جڑیں 1980 میں ہونے والی اس فوجی بغاوت سے جڑی ہیں، جس طرح کی بغاوت کا موجودہ حکومت اب ہمیشہ کے لئے راستہ روک دینا چاہتی ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کل اتوار کے روز12 ستمبر کو یہ ریفرنڈم ایک ایسے دن کروایا جا رہا ہے، جب سن 1980ء کی اس فوجی بغاوت کے ٹھیک تیس برس پورے ہو جائیں گے۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : عاطف توقیر