ترکی میں استنبول یونیورسٹی کے تہتر اساتذہ بھی گرفتار
18 نومبر 2016استنبول سے جمعہ اٹھارہ نومبر کو ملنے والی رپورٹوں میں ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تمام کے تمام گرفتار شدگان فتح اللہ گولن کے نظریاتی پیروکار ہیں اور انہیں جمعے کو صبح سویرے مارے گئے چھاپوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔
پاکستان سے ترک اساتذہ کی ملک بدری کی وجوہات سیاسی، ایمنسٹی
ترک اخبار ’جمہوریت‘ کے چیئرمین بھی گرفتار
ترک میڈیا پر کریک ڈاؤن ’انتہائی پریشان کن‘، چانسلر میرکل
انقرہ میں صدر رجب طیب ایردوآن کی قیادت میں ملک کی سیاسی انتظامیہ اقتدار پر قبضے کے لیے جولائی میں کی گئی لیکن خونریزی کے باوجود ناکام رہنے والی فوجی بغاوت کا اصل محرک فتح اللہ گولن ہی کو قرار دیتی ہے، جو اپنے خلاف ترک حکومت کے عائد کردہ ایسے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
گولن کئی برسوں سے امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور انقرہ حکومت نے واشنگٹن انتظامیہ سے گولن کو ملک بدر کر کے ان کو ترک حکومت کے حوالے کرنے کی درخواست بھی کر رکھی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے استنبول سے اپنی ایک مفصل رپورٹ میں لکھا ہے کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے مجموعی طور پر اب تک ایک لاکھ دس ہزار کے قریب سرکاری ملازمین، فوجیوں اور عدلیہ کے اہلکاروں کو ان کی ملازمتوں سے برطرف یا معطل کیا جا چکا ہے جب کہ مبینہ طور پر ’بغاوت میں ملوث‘ رہنے والے مزید 36 ہزار کے قریب افراد جیلوں میں بند ہیں اور اپنے خلاف عدالتی کارروائی کے انتظار میں ہیں۔
ترک مسلح افواج کے ایک چھوٹے سے حصے کی طرف سے اقتدار پر قبضے کی یہ کوشش ناکام رہنے کے باوجود 240 سے زائد انسانی ہلاکتوں کی وجہ بنی تھی۔
نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق استنبول میں اسٹیٹ پراسیکیوٹرز کی طرف سے ترکی کے اس سب سے بڑے شہر کی یونیورسٹی کے 103 اساتذہ کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ آج جمعے کو علی الصبح مارے گئے چھاپوں کے دوران ان میں سے 73 اساتذہ کو گرفتار کر لیا گیا۔
یہ تمام اساتذہ استنبول کی یلدیز ٹیکنیکل یونیورسٹی سے وابستہ ماہرین تعلیم ہیں اور حکام نے ان پر ایک ’مسلح دہشت گرد گروپ کی رکنیت‘ کا الزام عائد کیا ہے۔
ترک ریاستی اور معاشرتی ڈھانچے کو فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ افراد سے ’پاک‘ کرنے کی حکومتی مہم ہی کے دوران کل جمعرات سترہ نومبر کو ملکی محکمہ انصاف کے اعلیٰ حکام نے 203 ججوں اور وکلائے استغاثہ کو بھی ’گولن نواز دہشت گرد گروپ‘ کے ارکان قرار دے کر ان کی ملازمتوں سے برطرف کر دیا تھا۔
انقرہ حکومت کے ان جملہ اقدامات پر ترکی کے کئی مغربی اتحادی ملکوں اور انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں کو سخت تشویش ہے، جن کا یا تو یہ کہنا ہے یا انہیں خدشہ ہے کہ ان گرفتاریوں، برطرفیوں اور معطلیوں کے ساتھ ایردوآن انتظامیہ سیاسی مخالفین سے نمٹنے اور انہیں خاموش کرا دینے کے لیے استعمال کر رہی ہے یا کر سکتی ہے۔