1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں امریکی سینیٹر، سابق سی آئی اے سربراہ کے خلاف تفتیش

مقبول ملک
15 اپریل 2017

ترکی میں ریاستی دفتر استغاثہ نے امریکی سینیٹر چک شومر اور خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جان برینن سمیت سترہ شخصیات کے خلاف ان کے ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے ساتھ مبینہ رابطوں کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2bHWf
CIA Direktor - John Brennan
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جان بریننتصویر: Getty Images/AFP/J. Watson

ترکی کے شہر استنبول سے ہفتہ پندرہ اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق سرکاری خبر رساں ادارے انادولو نے بتایا کہ ترک اسٹیٹ پراسیکیوٹرز آفس کی استنبول شاخ کے سربراہ نے امریکا میں مقیم جن 17 شخصیات کے خلاف باقاعدہ چھان بین شروع کر دی ہے، ان میں امریکی سینیٹ کے رکن چک شومر اور جان برینن کے علاوہ سابق امریکی اٹارنی پریت بھرارہ بھی شامل ہیں۔ چک شومر امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹ ارکان کے پارلیمانی گروپ کے سربراہ ہیں۔

جرمنی میں بیس ترک شہریوں کے خلاف جاسوسی کے شبے میں تحقیقات

جرمنی فوجی بغاوت کے منصوبہ سازوں کی حمایت کر رہا ہے، ترکی

امریکی پالیسیوں پر ’مایوس‘ ہوں، ترک صدر

انادولو نے ہفتے کے روز بتایا کہ استنبول میں ریاستی دفتر استغاثہ کی طرف سے اس چھان بین کا آغاز ترک وکلاء کے ایک گروپ کی طرف سے دائر کی گئی مجرمانہ نوعیت کی ایک شکایت کے بعد کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ دفتر استغاثہ کی طرف سے ان سترہ شخصیات کے گولن تحریک کے ساتھ مبینہ رابطوں کی چھان بین کی جائے گی۔

USA Washington Senatoren John Cornyn und Chuck Schumer
امریکی سینیٹ کے ڈیموکریٹ رکن چک شومر، دائیں، کا تعلق ریاست نیو یارک سے ہےتصویر: Getty Images/D. Angerer
Fethullah Gulen
ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی امریکی ریاست پینسلوانیا میں ان کی رہائش گاہ پر لی گئی ایک تصویرتصویر: Reuters/C. Mostoller

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس باقاعدہ تفتیش کا آغاز ایک ایسا قانونی اقدام ہے، جس کے نتیجے میں کسی بھی مشتبہ فرد کے خلاف ترک حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش اور ایک دہشت گرد تنظیم کی رکنیت جیسے الزامات عائد کیے جا سکتے ہیں۔

ترک حکومت کا الزام ہے کہ امریکا میں پینسلوانیا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک ہی ترکی میں گزشتہ برس موسم گرما میں کی گئی انقرہ حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے اصل محرک تھے۔

انہی الزامات کے تحت انقرہ حکومت فتح اللہ گولن کی تحریک کو ایک دہشت گرد تنظیم بھی قرار دی چکی ہے جب کہ خود فتح اللہ گولن اپنے خلاف ترک حکمرانوں کے ایسے جملہ الزامات کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں۔