ترکی میں انتخابات، صدر ایردوآن کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا
24 جون 2018ترکی میں آج نئی پارلیمان اور صدر کے انتخاب کے لیے انسٹھ ملین شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ ووٹرز آج صبح سے ہی اپنے ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔
حالیہ الیکشن ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور اُن کی سیاسی جماعت اے کے پی کے لیے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایردوآن نے ترک شہریوں سے اپنے حق میں ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی صدارتی مدت کے دوران عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی ایک فہرست مرتب کی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ایردوآن اس صدارتی الیکشن میں با آسانی کامیابی حاصل کر سکتے ہيں۔
یہ انتخابات ترکی کو اُس انتظامی صدارتی نظام کے نفاذ کی جانب لے جائیں گے جس کی منظوری گزشتہ برس ترک عوام نے ایک متنازعہ ریفرنڈم میں دی تھی۔
چونسٹھ سالہ ترک صدر ایردوآن اگر ان انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں تو نئے صدارتی نظام کے تحت انہیں وسیع تر اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ ایردوآن کی حکمران جماعت اے کے پی پُر امید ہے کہ اسے ایک بار پھر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہو گی۔
سن 2003 سے اقتدار پر فائز صدر ایردوآن کو تاہم اس بار ایک مضبوط اور متحد حزب اختلاف کا سامنا ہے جس نے ترکی کو پارلیمانی جمہوریت کی طرف واپس لانے کا عہد کر رکھا ہے۔ یہ اپوزیشن ایردوآن کی ’شخصی حکومت‘ کی مذمت کرتی ہے۔
یوں تو ترک صدر کے خلاف بطور صدارتی امیدوار پانچ افراد کھڑے ہو رہے ہیں لیکن اُن کا اصل مقابلہ ان کے سخت ناقد اور سوشل ڈیموکریٹ رہنما چون سالہ محرم انچی سے ہے، جو ٹکر کا ثابت ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعت سی ایچ پی کی جانب سے اس بار جتنی جارحانہ انتخابی مہم چلائی گئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ صدر ایروآن کے لیے الیکشن جیتنا آسان نہیں ہو گا۔
ترکی میں اس بار پارلیمانی انتخابات میں چھ سو اراکین کو چنا جانا ہے۔ گزشتہ اسمبلی میں یہ تعداد ساڑھے پانچ سو تھی۔
ص ح / ع ص / اے پی